جمہوری آزاد پارٹی کی تشکیل اور پارٹی کے جھنڈے کی رونمائی نے کانگریس کے خیموں میں جیسے آگ لگادی ہے، کچھ لیڈروں کی جانب سے پارٹی کے سربراہ غلام نبی آزاد پر پے در پے اور رکیک حملے کرکے نشانہ بنایا جارہاہے ،ا ن کی کردار شی کی جارہی ہے اور اب انہیں بی جے پی کا پروردہ یا اشتراکی بھی قراردیاجارہاہے۔حیرت تو اس بات پر بھی ہے کہ جموں وکشمیر کانگریس سے وابستہ وہ کچھ افراد، جن کی اپنی کوئی حیثیت نہیں تھی، جن کا اپنا کوئی سیاسی قد نہیں تھا اور جو صرف اور صرف آزاد کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کے نتیجہ میں کانگریس کی اگلی صفوںتک پہنچ گئے بھی اپنے اس سابق سیاسی محسن کی بڑھ چڑھ کر کردارکشی کرکے آزاد کو ایک چھوٹا سا سیاستدان کے طور پر پیش کرکے غالباً دہلی کے کانگریسی لیڈروں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
کانگریس کی ایک خاتون لیڈر رجنی پٹیل نے آزاد کے بارے میں گذشتہ ایک مہینے کے دوران بہت کچھ کہا اور حد سے زیادہ زبان درازی کی ہے۔ جبکہ جے رام رمیش نامی ایک ٹیوٹر کانگریسی نے لداخ میں ایک ضمنی انتخاب میںکانگریس اُمیدوار کی بی جے پی اُمیدوار کے مقابلے میں الیکشن جیت کو آزاد کے منہ پر تھپڑ تک قراردیا ہے۔ موجودہ پردیش صدر وقار رسول اور اس کا سابق پیشرو جی اے میر جو دونوں آزاد کے سیاسی دستر خوان کی ہڈیوں کو چاٹتے ہوئے پارٹی کی اگلی صف تک جگہ پائے بھی آزاد کو مختلف ناموں سے پکار رہے ہیں اور بی جے پی کا دم چھلہ کے طور پیش کررہے ہیں۔
آزاد کی پارٹی سے علیحدگی اور جموں وکشمیر میںاپنی قیادت میں پارٹی کی تشکیل پر کانگریس ہائی کمان کے خیموں سے آگ کے شعلے کیوں بھڑکتے نظرآرہے ہیں جبکہ لیڈر شپ کا ایک حصہ کیوں سراسیمگی میں مبتلانظرآرہاہے یہ قابل فہم تو ہوسکتاہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا آزاد ہندوستان کی سیاسی اُفق سے وابستہ واحد اور اکیلے شخص ہیں جو پارٹی سے اپنی وابستگی ختم کرکے علیحدہ ہوئے جس کے ردعمل میںپارٹی قیادت اپنی پیٹ میں مروڑ اور سینوں میںآگ کے شعلوںکی تپش محسوس کررہی ہے؟
ککرناگ میں پارٹی کے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے سابق پردیش صدر جی اے میر نے جموں وکشمیر کی موجودہ حکومت کی جانب سے مہاراجہ ہری سنگھ کی یوم پیدائش کی مناسبت سے عام تعطیل کے اعلان کا جہاں خیر مقدم کیا وہیں جموں وکشمیر کو حاصل خصوصی پوزیشن اور آئینی تحفظات اور ضمانتوں کے تعلق سے تاریخ کو مسخ کرنے کی بھی دانستہ اور مضحکہ خیز کوشش کی ۔ دعویٰ کیا کہ مرحوم مہاراجہ نے دستاویز الحاق پر دستخط ثبت کرتے وقت اپنی سابق ریاست کیلئے خصوصی پوزیشن کے تحفظ کیلئے پارلیمنٹ سے ضمانت حاصل کی جسے بی جے پی نے یکطرفہ فیصلہ کرکے اور ختم کرکے اپنا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھایا۔ میر نے تاہم لوگوں سے اپیل کی کہ وہ کانگریس کو مضبوط بنائیں تاکہ ریاستی درجہ کی بحالی اور آئینی ضمانتوں کی واپسی کو یقینی بنایاجاسکے۔
کہتے ہیں جمہوریت میں ہر شخص کو تحریر وتقریر اور اپنے خیالات کی آزادی حاصل ہے۔ لیکن کیا اس آزادی کی آڑ میں تاریخی حقائق کو مسخ کرنے اور ان کو سیاق وسباق سے ہٹ کر اور توڑ کر پیش کرنے کی بھی آزادی حاصل ہے ؟ بادی النظرمیںایسا نہیں ہے لیکن کانگریس سے وابستہ کچھ لوگ کشمیرکے تعلق سے کانگریس قیادت اوراُس قیادت کی سرپرستی میںتشکیل پائی گئی سابق حکومتوں نے اقتدار کی آڑ میں یااقتدار کے بل بوتے پر جموںوکشمیر کی خصوصی پوزیشن اور آئینی ضمانتوں کی جو عصمت دری کی، جو اعتماداور عہد شکنی کی، جس سیاسی ریاکاری اور دھوکہ دہی سے کام لیا، وہ تو عصری تاریخ کا ان مٹ حصہ ہے۔ کیوں جموں وکشمیر نشین کانگریسی اپنی پارٹی اور اپنی سابق حکومتوں کی جعلسازیوں اور ریاکاریوں کااعتراف کرکے بات نہیں کررہی ہے برعکس اس کے اب یہ مضحکہ خیز دعویٰ کیاجارہاہے کہ مرحوم مہاراجہ نے دستاویز الحاق کے وقت اپنی سابق ریاست کیلئے آئینی تحفظات اور خصوصی پوزیشن کو پارلیمنٹ کی وساطت سے یقینی بنایا۔ کانگریس کے ان چھوٹے قد کے ورکروں کے یہ دعویٰ نیشنل کانفرنس کی موجودہ قیادت کیلئے بھی چیلنج ہے کیونکہ اس تعلق سے تاریخ ہمیں کچھ اور ہی بتارہی ہے۔
دفعہ ۳۷۰ کو منسوخ کرنے کے بی جے پی کے فیصلے کو بار بار نشانہ بنایاجارہاہے اور عوام کو یہ لالی پف منہ میں ٹھونسنے کی سعی لاحاصل کی جارہی ہے کہ کانگریس اقتدار میں آجائیگی تو ان آئینی ضمانتوں بشمول ۳۷۰، ۳۵؍اے وغیرہ کو واپس بحال کیاجائے گا ؟ کیا واقعی؟ کیا کانگریس کی موجودہ لیڈر شپ اس اہل ہے کہ وہ ملک گیر سطح پر اکثریت میںعوام کا اعتماد حاصل کرکے برسراقتدارآجائیگی! اور پھر فرض کرلیاجائے ،آبھی جائے تو جس دفعہ ۳۷۰؍ کی بات کی جارہی ہے کیا اس کو اُس حالت میں بحال کیاجائے گا جس حالت میںکانگریس راج کے دوران اس آئینی تحفظ کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کرکے محض کاغذ کا ایک پرزہ بناکر رکھدیاگیا تھا یا اُس دفعہ ۳۷۰ کو بحال کیاجائے گا جو پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو اور شیخ محمدعبداللہ کے درمیان طویل مذاکرات کا ثمرہ تھا۔ کانگریس کے یہ چھوٹے خود ساختہ لیڈران کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں اور کس کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
جموںوکشمیر میںلوگوں کو بحیثیت مجموعی دفعہ ۳۷۰؍ کے خاتمے پر کوئی افسوس نہیں ، اور نہ کوئی صدمہ ہے ، کیونکہ یہ دفعہ گھستے گھستے محض لیبل تک محدود ہوچکی تھی۔ بی جے پی نے اسے ختم کرکے درحقیقت لوگوں کو آزادی سے ہم کنار کردیا ہے اور انہیں نفسیاتی اور جذباتی دبائو یاکیفیت سے بھی آزادی دی ہے۔
اس سارے پس منظرمیں اورآزاد کے پارٹی سے علیحدگی کے فیصلے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اب زمینی حقیقت یہی ہے کہ جموںوکشمیر کانگریس مکت ہوچکا ہے ۔ کانگریس یونٹ کیلئے بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنا یہ آلودہ پاندان اُٹھالے۔ تاریخی حقائق کو مسخ کرنے یا معاملات کو جذباتی رنگ میں رنگنے کی کوشش کے باوجود یہ حقیقت اُسے تسلیم کرلینی چاہئے کہ جموںوکشمیر سے کانگریس کا پتہ کٹ گیا ہے۔ البتہ آزاد صاحب کے بارے میں اگر چہ عوا م ایک مخصوص رائے اور جذبہ رکھتے ہیں لیکن تلخ سچ یہ بھی ہے کہ آزاد پچاس سال تک کانگریس کا مرکزی سطح پر اہم ترین کردار کی حیثیت رکھنے کے باوجود اپنی پارٹی کی قیادت اور اس قیادت میں حکومت کو جموںوکشمیر کے آئینی تحفظات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے اور عہد شکنیوںسے باز رکھنے کی سمت میں کوئی مثبت کرداراداکرتے نظرنہیںآئے۔