دُنیا کے نقشے پر موجود کوئی ملک دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ جرائم سے مبرا ہے۔ جرائم پیشہ لوگ ہر ملک اور ہر سماج میں موجود ہیں ۔فرق صرف یہ ہے کہ کہیں جرائم کی نوعیت سنگین ہے یا تعداد میں اضافہ ہوتا جارہاہے یا کہیں کم تعداد میں جرائم کا ارتکاب ہورہاہے۔ اعداد وشمارات کا سہارالئے بغیر اور بغیر کسی لگی لپٹی کے کہاجاسکتاہے کہ مجرمانہ ذہنیت اور کردار کے حامل لوگ ہر ملک اور ہر سماج میں موجود ہیں۔
ہمارے ملک ہندوستان میں بھی جرائم پیشہ افراد کی کوئی کمی نہیں ، آئے روز ملک کے کسی نہ کسی خطے یا علاقے میں جرائم کا ارتکاب ہورہاہے۔ اس تعلق سے ابھی چند ہی روز قبل ملک کے ایک مستند ادارے نے جرائم کے بارے میں جو اعداد وشمارات جاری کئے وہ چونکا دینے والے ہیں اور ان اعداد کو دیکھتے ہوئے ہر حساس، ذمہ دار اور غیرت مند شہری کا سرندامت اور شرمندگی سے جھکتا نظرآیا۔اس حوالہ سے تازہ ترین واقعہ چندی گڑھ کی ایک یونیورسٹی کے گرلز ہوسٹل سے تعلق رکھتا ہے جہاں ایک لیک ویڈیو نے نہ صرف حکومتی اداروں بلکہ عام شہریوں کو بھی سڑک پر لاکھڑاکیاہے۔
ہماری ہمسائیگی میں بھی جتنے ملک آباد ہیں ان میں بھی مختلف نوعیت کے جرائم کا مسلسل ارتکاب ہورہاہے۔ کوئی جرم چونکا دینے والا ہے، کسی کی نوعیت دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیںالبتہ کچھ کی نوعیت معمولی ہوتی ہے لیکن جرم چاہئے سنگین ہویا معمولی، جرم ہی ہے۔
کراچی(پاکستان)جس کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ یہ پاکستان کی کمرشل راجدھانی ہے، روشنیوں کا شہر اور شوبز کا مرکز ہے لیکن جتنے جرائم کراچی میں ریکارڈ کئے جارہے ہیں پاکستان کے کسی دوسرے شہر میں اتنے نہیں۔ کراچی بھتہ خوروں، موٹر اور موٹر سائیکل سوا ر لٹیروں، مسلح دہشت گردوں، سماج دُشمن اور مجرمانہ ذہنیت کے حامل وکردارافراد کی کمین گاہوں کا مسکن بھی کہلارہا ہے۔
کراچی کے اورنگی ٹائون میںایک معصوم بچے کو زندہ جلانے کا دلخراش سانحہ منظرعام پر آیاہے۔ اس واقعے نے توجہ اپنی طرف مبذول کرکے رونگٹے کھڑا کردیئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق باپ نے اپنے کمسن بیٹے پر گھر میں موجود تیل اور تھنر پھینک دیا اور پھر جلتی تیلی پھینک کرجلادیا۔۱۲؍ سالہ بچہ دو روز تک ہسپتال میں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد ۱۶؍ ستمبر کو داعی اجل کو لبیک کہہ گیا۔بچے کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ پتنگ کے لئے ضد کرتارہا جبکہ باپ بیٹے سے اپنی ہیوم ورک کے بارے میں پوچھتا رہا اور بقول باپ کے بیٹا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ جس پر طیش میں آکر باپ نے بیٹے کو زندہ جلا کر موت کی ابدی نیند سلادیا۔ پولیس کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق باپ کسی نفسیاتی مرض میں مبتلا نہیں جواس بات کی طرف واضح اشارہ کررہا ہے کہ مجرمانہ ذہنیت کا کوئی بھی شخص چاہئے باپ ہی ہو اپنی سفاکیت سے باز نہیں رہتا۔
اسی شہر کے بارے میں تازہ ترین اعداد وشمارات یہ ہیں اس مہینے ۱۸؍ ستمبر تک چوروں، ڈاکوئوں اور لٹیروں کی مزاحمت کرنے کے دوران ۱۲؍شہری ہلاک ہوئے ہیں جبکہ رواں سال کے پہلے ۸؍مہینوں کے دوران ۵۸؍ ہزار مختلف نوعیت کے جرائم ریکارڈ کئے گئے۔ اوسط نکالیں تو پاکستان کے صرف کراچی میں روازانہ ۲۴۲؍ مجرمانہ واقعات رونما ہورہے ہیں۔ مقامی لوگوں اور تجزیہ کاروں کے مطابق جرائم کی اس بڑھتی رفتار کی اہم وجہ یہ ہے کہ کراچی میں افغان مہاجرین بہت بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہیں جبکہ بلوچ آبادی بھی اچھی خاصی تعداد میں کراچی میں مقیم ہیں۔ ان دونوں نے کراچی کی معیشت، کاروبارکے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ تقریباً ہر شعبے میںاپنے قدم جمالئے ہیں جبکہ مجرمانہ راستوں کو اپنی معمول کی زندگی کا حصہ بنانے کیلئے یہ دونوں طبقے پیش پیش ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے دُنیا میں کروڑوں اربوں کی تعداد میں مخلوق پیدا کئے ہیں، آدم ذات بھی ایک مخلوق ہے لیکن اس آدم ذات کو اشرف المخلوق کا درجہ اور رتبہ عطاکیا ہے ۔ اس آدم زاد کی بدقسمتی یہ ہے کہ دُنیا میں آتے اور ہوش سنبھالتے ہی قابیل نے مجرمانہ راستہ اختیار کیا،پہلا قتل کیا، حسد اور بغض کی آگ میں خود کو جلادیا، اشرف المخلوق کی فطرت اور خصلت کے حامل اپنے بھائی ہابیل کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔
بہرحا ل ہمارا اپنا جموں وکشمیر بھی مختلف نوعیت کے جرائم سے مُبرا نہیں ہے۔ کشمیر اور جموں دونوں صوبوں میں اب زمانہ کی رفتار کے ساتھ ساتھ قدم سے قدم ملاتے ہوئے انہی جرائم کا ارتکاب روز کا معمول بن چکا ہے جس نوعیت اور ہیت کے جرائم ، جنوبی ایشیاء کے اس خطے کے ممالک کے ساتھ ساتھ باقی دُنیا میں ہورہے ہیں۔ لوٹ، چوری، ڈکیتی، ہجومی تشدد، جھوٹے اور مکاری سے عبارت الزامات عائد کرکے بے گناہوں اور معصوموں کے خلاف تادیبی کارروائیاں، قتل وغارت ، کورپشن، بدعنوانیاں، اغوااور عصمتوں پر حملے وغیرہ اس سبک رفتاری کے ساتھ ہورہے ہیں کہ اب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی ان دلخراش اور روح فرسا واقعات کو پچھلے صفوں پر بھی جگہ نہیں دیتا۔
کشمیر کے تناظرمیں بات کی جائے تو مجرمانہ کارروائیاں مقامی مجرمانہ ذہنیت کے حامل معددودے چند تک محدود نہیں رہے بلکہ اب ملک کی مختلف ریاستوں سے آئے لوگ جو بظاہر روزی روٹی کے حصول کے لئے وارد کشمیر ہورہے ہیں میں سے کچھ مجرمانہ ذہنیت کے حامل بھی ان جرائم میں ملوث پائے جارہے ہیں۔ کشمیر کی اُفق پر اُبھرتا یہ منظرنامہ فکروتشویش اور اضطراب کا موجب بنتا جارہاہے۔ اس سال کے دوران اب تک کئی ایک مجرمانہ واقعات پیش آئے، ان کی نوعیت کا قریب سے مشاہدہ کرنے پر یہ بات مترشح ہوجاتی ہے کہ کشمیر کو بھی جرائم کے نقشے پر لانے کی سمت میں پیش قدمی ہورہی ہے۔
منشیات کا بڑھتا استعمال اس تعلق سے ایک اور ونڈو کی طرف واضح اشارہ ہے۔ جبکہ کشمیر کی مقامی آبادی کو اپنے روایتی معاشرتی اقداراور روح سے دستبردار کرنے کیلئے بھی مختلف حلقے بھرپور مقامی معاونت کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔
بدلتا کشمیرکے حوالہ سے یہ بھی ایک باب ہے مگر فی الحال عنوان کا منتظر!!