مرکزی وزیر زراعت‘ شیو راج چوہان کا کشمیر کا حالیہ دورہ کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ انہوں نے اس خطے میں باغبابی کے شعبے کو ترقی دینے کیلئے متعدد اقدامات کا بھی اعلان کیا ۔ان کاکہنا ہے کہ مرکزی حکومت جموں کشمیر کی جامع ترقی کیلئے پرعزم ہے اور اس کا مقصد اسے دنیا کا پھلوں کی کاشت کا مرکز بنانا ہے۔
شعبہ باغبانی جموں کشمیر کی معیشت میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے ، جو اس کی مجموعی ریاستی گھریلو پیداوار (جی ایس ڈی پی) میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے اور اس کی آبادی کے کافی حصے کو روزی روٹی فراہم کرتا ہے۔باغبابی کا شعبہ جموں کشمیر کے جی ایس ڈی پی میں ۶ تا ۷ فیصد حصہ ڈالتا ہے ۔اس کے علاوہ خطے کی سازگار آب و ہوا پھلوں کی فصلوں کی ایک وسیع رینج کی کاشت کو سہارا دیتی ہے ، جس کی وجہ سے اسے ’پھلوں کی سرزمین‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
حکومت کے ۲۰۲۴۔۲۰۲۵ اقتصادی جائزے کے مطابق اس شعبے سے سالانہ تقریبا دس ہزار کروڑ روپے کی آمدنی اور تقریبا ۳۵ لاکھ لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے ، جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر تقریبا سات لاکھ خاندانوں کی مدد کرتا ہے۔
حالیہ برسوں میں جموں و کشمیر میں باغبانی کے شعبے کو تبدیل کرنے کی خاطر خواہ کوششیں کی گئی ہیں۔ ان اقدامات میں پیداواریت بڑھانے ، معیار کو بہتر بنانے اور تکنیکی ترقی/مداخلت اور جدید کاشتکاری کے طریقوں کے ذریعے سال بھر پھلوں کی دستیابی کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
ہائی ڈنسٹی پلانٹیشن (ایچ ڈی پی) کو متعارف میں نمایاں پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے ، صرف مالی سال۲۰۲۳۔۲۰۲۴ میں۴۹ء۳۲ لاکھ ہائی ڈینسٹی پلانٹس تقسیم کیے گئے ، جبکہ۲۰۲۱۔۲۰۲۲ میں۴۱ء۶ لاکھ درخت تھے۔
اس پس منظر میں باغبانی کا شعبہ جموںکشمیر ‘جہاں نوجوانوں میں بے روز گاری کی سطح ۴ء۱۷ فیصد ہے جو قومی اوسط سطح(۲ء۱۰) سے تتقریباً ۷ فیصد زیادہ ہے‘کی اقتصادی ترقی کیلئے کلیدی اہمیت کا حامل ہے ۔
ماہرین کاماننا ہے کہ گزشتہ ۳۰ برسوں کے نا مساعد حالات ‘ جس دوران کشمیر کی اقتصادی سرگرمیاں کافی حد تک متاثر رہیں ‘ اس شعبہ نے جموں کشمیر کی معیشت کو کندھا اور سہارا دیا ۔
جموں کشمیر کا باغبانی کا شعبہ جدید کاری ، پیداواریت میں اضافے ، بازار کے انضمام اور پائیداری پر واضح توجہ کے ساتھ ترقی کر رہا ہے۔ یہ کوششیں نہ صرف فروٹ گرووروں کی آمدنی بڑھانے کا وعدہ کرتی ہیں بلکہ اس خطے کو گھریلو اور عالمی سطح پر اعلی معیار کے پھلوں کی پیداوار میں ایک رہنما کے طور پر بھی پیش کرتی ہیں۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ جموںکشمیر میں باغبانی کے شعبہ کو ترقی دینے کیلئے اقدامات کئے جائیں اور ان تمام رکاوٹوں کو دور کیا جائے جو اس کی ترقی میں رکاوٹ کے طور پر حائل ہیں ۔
کم و بیش ۲۰ سال پہلے جموںکشمیرمیں اس شعبہ ‘خاص کر سیبوں کی پیداوار کو بڑھانے کیلئے اس وقت کے وزیر اعلیٰ‘ مفتی سعید نے ہائی ڈنسٹی پلانٹیشن کو متعارف کیا اور جنوبی کشمیر میں ایسا پہلا باغ لگایا گیا ۔آج وادی میں ہائی ڈنسٹی پلانٹیشن کو فروغ تو ملاہے لیکن یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ دو تین سال بعد ان درختوں میں بیماری لگ جاتی ہے اور یوں پیداوارمتاثر ہو جاتی ہے جس کی طرف مرکزی وزیر زراعت نے بھی اشارہ کیا ۔
اس اشو کو ایڈریس کرنے کیلئے چوہان نے ہارٹیکلچر کے مربوط ترقی کے مشن (ایم آئی ڈی ایچ ) کے تحت۱۵۰ کروڑ روپے کے کلین پلانٹ سینٹر کے قیام کا اعلان کیا۔مرکزی وزیر کاکہنا تھا کہ یہ مرکز بیماری سے پاک پودوں کا مواد فراہم کرے گا، جس سے درآمد شدہ پودوں کی پر انحصار کم ہوگا جو اکثر وائرس یا بیکٹیریا لے کر آتے ہیں۔انہوںنے کہا کہ ۵۰۰۰ ہیکٹرز میں سیب کی پیداوار کئی گنا بڑھ گئی ہے۔اور’’ مجھے امید ہے کہ وہ دن دیکھوں جب بھارت سیب کی درآمد بند کر دے گا اور کشمیر کی پیداوار دنیا بھر میں برآمد کی جائے گی‘‘۔
تازہ اور خشک میوہ جات کی پیداوار ۲۰۱۸۔۲۰۱۹کء۰۶ء۲۰ لاکھ میٹرک ٹن سے بڑھ کر۲۰۲۴۔۲۰۲۵ میں۳۵ء۲۶ میٹرک ٹن تو ہو گئی ہے لیکن اس کے باوجود یہ ملک کی ضررریات کو پورا کرنے کیلئے کافی نہیں ہے ۔ہر سال میوہ جات کی پیدوار میں اضافہ تو ہو رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ تازہ میوہ جات کی در آمد بھی بڑھ رہی کیونکہ ملک کے بازار میں پھلوں ‘ خاص کر سیب کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں تازہ سیب کی درآمدات ۲۰۲۳۔۲۰۲۴ (جولائی۲۹۲۳تاجون۲۰۲۴) کے مارکیٹنگ سال کے پہلے نو ماہ میں پچھلے سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں ۷۰ فیصد سے زیادہ بڑھ گئیں اور یہ۵لاکھ۱۰ہزار ٹن تک پہنچنے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ملک امریکہ کے علاوہ ترکیہ اور ایران سے بھی سیب در آمد کرتا ہے ۔
اندازہ لگائیے کہ اگر جموںکشمیر کی پھلوں کی مانگ کو پورا کرنے کی پوزیشن میں آتا ہے محض باغبابی شعبہ اس خطے کی کایا پلٹ کر سکتا ہے ۔
لیکن یہ سب مرکزی حکومت کی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ایسے میں مرکزی وزیر زراعت کا حالیہ دورہ اس لئے اہم ہے کیونکہ انہیں اس دورے کے دوران نہ صرف کشمیر کے باغبابی شعبہ کی ممکنہ صلاحیتوں کا ادراک ہوا ہو گا بلکہ اس شعبے کو اس کی صلاحیتوں کے عین مطابق ترقی دینے کے راستے میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں بھی معلومات ملی ہوں گی‘ جنہیں اگر دور کرکے ان پر قابو پا لیا جاتا ہے تو دنیا نہ سہی لیکن کشمیر جنوبی ایشیامیں پھلوں کے ایک مرکز کے طور پر ابھر سکتا ہے ۔