آج جمعرات سے ۳۸ روزہ امر ناتھ یاترا کا آغاز ہورہاہے اور بدھ کو جموں سے وادی پہنچنے ہزاروں یاتری بالتل اور ننون بیس کیمپوں سے گھپا کی جانب اپنا سفر شروع کریں گے ۔
رواں سال اپریل میں بائسرن میں دہشت گردانہ واقعہ کے تناظر میں یاتریوں کیلئے سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے گئے ہیں ۔وادی میں موجودسکیورٹی بندو بست کے علاوہ یاترا کیلئے نیم فوجی دستوں کی ۱۸۰ کمپنیاں یاترا کے پر امن انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے ۴x۲۷ اس کی نگرانی کررہے ہیں ۔
یاتری کا پہلا دستہ ‘ جسے بدھ کی صبح ایل جی سنہا نے جموں سے روانہ کیا تھا ‘ جب وادی کی حدود میں داخل ہوا تو اس کا مقامی لوگوں نے پر تپاک استقبال کیا۔ وادی پہنچنے پر یاتریوں کے دستوں کا کولگام ، اننت ناگ اور سری نگر اضلاع میں انتظامیہ اور مقامی لوگوں کی جانب سے شاندار استقبال کیا گیا۔
یاتری جنوبی کشمیر کے کوگام ضلع کے قاضی گنڈ علاقے میں نووگ سرنگ کے ذریعے وادی پہنچے ، جہاں جنوبی کشمیر رینج کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس اور کلگام کے ڈپٹی کمشنر نے ان کا استقبال کیا۔
کشمیری مسلمانوں اور امر ناتھ یاترا کا آپس میں گہرا تعلق ہے جو آج کانہیں بلکہ صدیوں پرانا ہے ۔یہ وہ زمانہ تھا جب یاتریوں کیلئے سرکاری انتظامات نہ ہونے کے برا بر ہوتے تھے اور یاترا کی کامیبابی کا انحصار مقامی لوگوں کے تعاون پر ہوتا تھا ‘ جو وہ ہنسی خوشی کرتے تھے ۔
یاترا کے انعقاد میں مقامی کشمیری مسلمانوں کا کردار خاص طور پر اہم ہے، چاہے حالات کچھ بھی ہوں۔ ہزاروں کشمیری مسلمان یاترا میں شامل ہوتے ہیں، یاتریوں کے لیے کام کرنے والے، گھوڑے چلانے والے اور پالکی اٹھانے والے کے طور پر خدمات فراہم کرتے ہیں۔ہر سال سینکڑوں مقامی افراد یاترا کے بیس کیمپوں پر مختلف قسم کی اشیاء پیش کرتے ہیں‘ جو یاتریوں کے لیے ہوتی ہیں جبکہ یہ مقامی افراد کیلئے ایک کاروبار ہے۔ان کاکہنا ہے’’ہم یہاں آتے ہیں جب یاترا شروع ہوتی ہے۔ ہم مقدس گھپا اور واپسی پر یاتریوں کے بیگ اٹھا کر اپنا گزارہ مہینہ بھر کرتے ہیں۔ یاتری بھاری بیگ نہیں اٹھا سکتے، اس لیے ہم وہ ان کے لیے اٹھاتے ہیں‘‘۔ان کامزید کہنا ہے ’’ہم یاتریوں خاص طور پر بوڑھے لوگوں کو پالکیوں میں اٹھاتے ہیں۔ ہم انہیں اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں۔ یہ ہمیں اپنے گزارے کمانے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے‘‘۔
بہت سے مقامی لوگوں کے لیے یاترا ہندو،مسلم اتحاد کی علامت ہے۔اور اسی لئے ایل جی سنہا نے گزشتہ دنوں جب یاترا کے حوالے سے کشمیر کی سیاسی قیادت اور بعد ازاں سول سوسائٹی سے ملاقات کی تو انہوں نے بجا طور پر کہاک’’شری امرناتھ جی یاترا جموں و کشمیر کے شاندار ماضی اور اس کے مستقبل کی ایک طاقتور علامت ہے۔ یہ واقعی ایک عوامی یاترا ہے۔ ہر شہری اس مقدس یاترا کا ایک کلیدی حصہ دار ہے جو ہر طبقے کے لیے عمیق سماجی و اقتصادی، روحانی، اور ثقافتی اہمیت رکھتی ہے۔ اس سال بھی، معاشرتی ہم آہنگی اور معاشرتی اتحاد کو برقرار رکھنا اور مقدس زیارت کے پرامن اور کامیاب انعقاد کو یقینی بنانا آپ کی ذمہ داری ہے‘‘۔
لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ جموں و کشمیر اور اس کے لوگوں نے ہمیشہ فرقوں اور مذاہب کے درمیان تمیز کو مسترد کیا ہے، ہر عقیدے اور اس کی منفرد عبادت کی شکلوں کے لیے احترام اور قبولیت کی توسیع کی ہے۔ان کاکہنا تھا’’اسی جذبے کے ساتھ، آئیے لاکھوں عقیدت مندوں کا خیرمقدم کریں جو شری امرناتھ جی یاترا کے لیے آرہے ہیں اور، ہماری اجتماعی کوششوں کے ذریعے، تمام عقیدت مندوں کے لیے ایک کامیاب، پْرامن اور بغیر کسی دشواری کے یاترا کو یقینی بنائیں‘‘۔
کئی سالوں سے کشمیری عوام مہمان نوازی اور بھائی چارے کیلئے جانے جاتے ہیں اور اس کی نمائش ایک دہائی پرانی سالانہ امرناتھ یاترا کے دوران خاص طور پر ایسے وقت میں کی جاتی ہے جب انتظامیہ ایک ہموار اور پرامن زیارت کو یقینی بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ تاہم ، مقامی مسلمانوں کی طرف سے ہندوؤں کی مدد اور مدد فرقہ وارانہ امن اور کشمیر کی پرانی ہم آہنگ اخلاقیات کی تصویر پیش کرتی ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ جب یاترا شروع ہو تی ہے تو پہلگام اور بالتل کے علاقوں میں ایک تہوار جیسا ماحول ہو تا ہے ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یاترا کیلئے سہولیات میں بہتری آ رہی ہے ۔گرچہ سکیورٹی وجوہات کی وجہ سے امسال خواہشمند یاتریوں کو ہیلی کاپٹر کی خدمات مسیر نہیں ہوں گی لیکن باڈر روڈس آرگنائزیشن(بی آر او) نے گھپا تک کے راستے کو کافی بہتر اور آرام دہ بنایا ہے ۔بی آر او کے مطابق بالیل اور چندنواری راستوں پر اہم ترقیاتی کام مکمل کر لیا گیا ہے۔اور اس سلسلے میں۴۵ کلومیٹر سے زیادہ راستے کو۱۲ فٹ تک چوڑاکیا گیا جویاتریوںکیلئے ایک محفوظ اور ہموار یاترا کے تجربے کو یقینی بناتا ہے۔
آج سے شروع ہونے والی یاترا اگلے ماہ کی ۹ تاریخ کو ختم ہو جائیگی ۔بائسرن واقعہ کے بعد گرچہ یاتریوں کی رجسٹریشن میں کمی آئی تھی اور حکومت کاکہنا تھا کہ گزشتہ سال کے مطابق یہ کم و بیش ۱۰ فیصد کم ہے‘ لیکن حالیہ کچھ دنوں میں اس میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے ۔ یاتری جس جوش و جذبے کے ساتھ اس مقدس یاترا میں شریک ہو رہے ہیں امید کی جا سکتی ہے کہ جب یاترا اپنے اختتام کو پہنچ جائیگی تو تب تک گزشتہ سال سے بھی زیادہ تعداد میں یاتریوں نے مقدس گھپا کا درشن کیا ہو گا ۔