جنیوا//
عالمی ادارہ صحت [ڈبلیو ایچ او] کے رکن ممالک نے مستقبل کے وبائی امراض سے نمٹنے کے طریقہ کار پر ایک تاریخی معاہدے کے متن پر اتفاق کیا ہے۔ برسوں کی طویل بات چیت بدھ کے اوائل میں اختتام پذیر ہوئی جس میں طے پانے والے معاہدے کا مقصد کووڈ-19 بحران کے دوران کی گئی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کرنا ہے۔
تین سال سے زیادہ کے مذاکرات اور ایک آخری میراتھن سیشن کے بعد ڈبلیو ایچ او کے ہیڈ کوارٹر میں تھکے ہوئے مندوبین نے بدھ کی صبح تقریباً 2:00بجے (0000 جی ایم ٹی) معاہدے پر مہر ثبت کر دی۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس اذانوم گیبریئسس نے کہا کہ "ایک محفوظ دنیا کی طرف ہمارے مشترکہ سفر میں آج کی رات ایک اہم سنگِ میل کی نشاندہی کرتی ہے۔ دنیا کی اقوام نے آج جنیوا میں تاریخ رقم کر دی۔ "
کووڈ-19 میں لاکھوں لوگوں کی ہلاکت اور معیشتوں کی تباہی کے پانچ سال بعد مذاکرات پر عجلت کا ایک بڑھتا ہوا احساس حاوی تھا جن میں ایچ فائیو این ون برڈ فلو سے لے کر خسرہ، ایم پاکس اور ایبولا تک صحت کے نئے خطرات زیرِ بحث آئے۔
مذاکرات کا آخری مرحلہ ایسے وقت میں ہوا جبکہ امریکہ کی غیر ملکی امداد میں کٹوتیوں اور دواسازی پر محصولات کے نفاذ کا خطرہ مذاکرات پر منڈلا رہا تھا۔
آخری لمحات تک چند کانٹے دار مسائل پر اختلاف برقرار رہا۔
مذاکرات کاروں کو معاہدے کی شق 11 پر کسی قدر مشکل کا سامنا رہا جو وبائی امراض کی صحت کی مصنوعات کے لیے ترقی پذیر ممالک کی طرف ٹکنالوجی کی منتقلی سے متعلق ہے۔
کووڈ-19 وبائی مرض کے دوران غریب ریاستوں نے امیر ممالک پر ویکسین اور ٹیسٹ کی ذخیرہ اندوزی کرنے کا الزام لگایا تھا۔
دوا سازی کی بڑی صنعتوں والے ممالک نے ٹکنالوجی کی لازمی منتقلی کے خیال کی سختی سے مخالفت اور اس بات پر اصرار کیا ہے کہ یہ رضاکارانہ ہونی چاہیے۔
لیکن بظاہر اس رکاوٹ کو یہ شق شامل کرکے دور کیا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی منتقلی "باہمی اتفاق” کے ساتھ ہو۔
معاہدے کا بنیادی جُز ایک مجوزہ پیتھوجن ایکسیس اینڈ بینیفٹ شیئرنگ سسٹم (پی اے بی ایس) ہے جس کا مقصد فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے ساتھ پیتھوجین کی معلومات کا تیزی سے اشتراک ممکن بنانا ہے تاکہ وہ وبائی امراض سے لڑنے والی مصنوعات پر تیزی سے کام شروع کر سکیں۔
آخر میں 32 صفحات پر مشتمل معاہدہ مکمل طور پر سبز رنگ میں نمایاں کیا گیا جس سے ظاہر ہوا کہ اسے ڈبلیو ایچ او کے رکن ممالک نے مکمل طور پر منظور کر لیا تھا۔