سرینگر شہر، اس کے مضافات ،دیہات اور قصبوں میں آوارہ کتوں کے جھنڈ در جھنڈ دندناتے اور غراتے نظرآرہے ہیں گویا یہ درندے سڑکوں اور بستیوں پر اپنی بے تاج شہنشاہیت ، دبدبہ اور راج تاج کا اعلان کررہے ہیں اور شہریوں سے سوال کررہے ہیں کہ ہے کوئی جو ہمار ا مقابلہ کرے اور ہماری سلطنت کو چیلنج کرے۔
بظاہر کوئی نہیں ، کیونکہ وہ زمانہ لُد گیا جب سال بھرمیں دو یاتین مرتبہ آوارہ کتوں کی افزائش نسل کو روکنے یا حد اعتدال پر رکھنے کیلئے انہیں زہر دے کر موت کی نیند سلادیا جاتا تھا لیکن وقت گذرتے جس طرح عالمی سطح پر دہشت گرد، جنون پرست، ہجومی تشدد پرایمان اور یقین رکھنے والے بنی نوع انسان، امن اور انسانی ترقیات کیلئے ایک زبردست چیلنج بن کر بلکہ سم قاتل بن کر دندناتے پھر رہے ہیں اور مختلف انسان اور ادارے نما عنصر ان دہشت گرد عناصر کی پشت پناہی کررہے ہیں اسی طرح آج کے دور میں درندوں کی نسل سے وابستہ کتوں کی افزائش نسل، ان کی دیکھ بھال، صحت اور سلامتی کے حوالہ سے اقدامات ،ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے کتو ںکیلئے مخصوص غذائوں کی تیاری اور دوسرے مطلوبہ اقدامات بلکہ کاروبار سے وابستہ ادارے اور سرکاری وضائف اور مالی امداد کے حصول کی راہیں ہموار رکھنے کی غرض سے کچھ مخصوص این جی اورز اس نسل کا صفایا کرنے کی راہ میں حائل ہی نہیں بلکہ جونہی شہری آبادی کی صحت اور سلامتی کے تعلق سے کوئی قدم اُٹھایا جارہا ہے تو یہ لوگ جٹ میدان میں کود پڑتے ہیں اور کتو ںکو بچائو کے نعرے بلند کرتے ہیں۔
ان لوگوں اور اداروں کی سرپرستی ملکی سطح پر کئی لوگ اور ادارے کررہے ہیںجن میں منیکا گاندھی،جس نے ماضی قریب میں کشمیرکی شہرہ آفاق پشمینہ صنعت کی تباہی وبربادی کی بُنیاد رکھی اور جس بُنیاد کو اپنی انکھوں سے دیکھنے اور کشمیرکی اس صنعت کے زوال اور انحطاط کے حوالہ سے متوقع مضمرات کو محسوس کرنے کے باوجود وقت کے حکمرانوں نے آنکھیں بندکرلی تھی، خاص طور سے قابل ذکر ہے۔
آبادی حیران اور ششدر ہے ۔ سوال پہ سوال کیا جارہاہے کہ کتوں کی افزائش نسل کو روکنے کے حوالہ سے کئی برسوں سے جن اقدامات اور منصوبہ بندپروگراموں کے اعلانات سامنے آرہے ہیں کے باوجود اتنی تعداد میں کتے کہاں سے آرہے ہیں اور بستیوں میںنمودار ہوکر کچھ ایام تک دندناتے پھرنے کے بعد اچانک وہ کہاں غائب ہوجاتے ہیں اور انکی جگہ کتوں کا ایک نیا جھنڈ اپنی موجودگی کااعلان کرتا نظرآرہاہے۔ سرینگر میونسپلٹی اور وادی کے دوسرے بلدیاتی ادارے اس حوالہ سے نہ صرف شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہیں بلکہ ہرسال لاکھوں روپے مختص بجٹ کی تصرفات کے باوجود ذرہ بھر بھی شہری آبادی کو تحفظ حاصل نہیں۔
مسلسل دعویٰ کیاجارہاہے کہ کتوں کی افزائش نسل روکنے کیلئے ان کی نس بندی کی جارہی ہے ، اگرو اقعی یہ پروگرام عمل آوری کے حوالہ سے جاری ہے تو پھر کتو ںکی آبادی کن دوسرے وجوہات کی بنا پر بڑھتی جارہی ہے۔ کیا بیرون کشمیرسے گاڑیوں میں بھر بھر کے کتوں کو کشمیر لایاجارہاہے اور انہیں مختلف بستیوں میںرات کی تاریکیوں میں چھوڑاجارہاہے یا یہ محض ایک عوامی تاثرہے یا مفروضہ؟ کچھ بھی ہو زمینی حقیقت یہ ہے کہ وہ کوئی سڑک، گلی ، کوچہ، نکڑ اور کھیت اور کھلیان نہیں جہاں انسانوں سے کہیں زیادہ آوارہ کتوں کے جھنڈ در جھنڈ موجود اور دندناتے پھر رہے ہیں۔
محض چند روز قبل ڈائون ٹائون سرینگر کی ایک بستی میں آوارہ کتوں نے بیک وقت چالیس شہریوں کو کاٹ کھایا ، قطع نظر اس کے کہ اس نوعیت کے متعدد واقعات بستیوں اور مضافات میں آئے روز پیش توآرہے ہیں لیکن رپورٹ نہیں ہورہے ہیں، لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ سب کچھ نارمل ہے کوئی ناخوشگوار معاملہ سامنے نہیںآرہاہے اور درندہ کتوں کی نسل اور آبادی اچانک اب شرافت کی زندگی بسرکررہی ہے۔
صبح سویرے سکول جانے والے بچوں کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے ان کے والدین پر اضافی بوجھ بڑچکا ہے، وہ مجبوری اور بے بسی کے عالم میں بچوں کو اپنے ساتھ لے کر بسوں پر سوارکررہے ہیں اور یہی مشق بچوں کی سکولوں سے واپسی پرانہیںدہرانا پڑرہی ہے۔ کسی بھی بستی میں چلنا پھرنا بتدریج ناممکن بنتا جارہا ہے۔ ہاتھ میں کچھ بھی ہوکتوں کے جھنڈ اُن پر حملہ آور ہوکر چھین لیتے ہیں، مزاحمت کریں تو کاٹ ڈالتے ہیں۔ پھر بھی سرینگر میونسپلٹی اور وادی کے دوسرے بلدیاتی اداروں کے منتظمین اور ان کے سرپرست اعلیٰ حضرات کتوں کے ان حملوں کو ان کی فطرت اور روزمرہ کا معمول قرارد کر اپنی ذمہ داریوں سے دامن کترانے کی سعی لاحاصل میں اپنی عاقبت تباہ کررہے ہیں۔
کتے کے کاٹے کے علاج اور مابعد طبی نگہداشت کو یقینی بنانے کیلئے کم سے کم دس بارہ ربیز انجکشن درکار ہے ۔ ایک ربیزانجکشن کی قیمت اوسط ساڑھے تین سو روپے ہیں ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دس بارہ انجکشن کے لئے کم سے کم ۳۵۰۰ اور ۴۲۰۰؍ روپے کا خرچہ، دوسرے اخراجات اور نگہداشت کے حوالہ سے بات نہیں کررہے ہیں۔ کیا اس کا ذرہ بھر بھی احساس ان لوگوں اور این جی اوز کو نہیں جو کتوں کے تحفظ کیلئے دن رات مرے جارہے ہیں ؟ باالخصوص وہ این جی اوز جو کتوں کے نام پر مختلف اداروں سے سالانہ بجٹ حاصل کررہے ہیں کیا کبھی انہوںنے کتے کے کاٹے کسی متاثر کے علاج ومعالجہ کے تعلق سے اخراجات برداشت کئے، بادی النظرمیں نہیں۔
بہرحال تمام تر مشاہدات، تجربات، پیش آمدہ واقعات اور معاملات، لوگوں کو درپیش مشکلات اور بحیثیت مجموعی صحت عامہ کے تعلق سے معاملات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نچوڑ یہ ہے کہ چاہے حکومت کی پالیسی ہویا بلدیاتی اداروں کی پالیسی اور منصوبہ بندی اس ضمن میں کلیتاً ناکام ہوچکی ہے، کیونکہ اس پالیسی اور منصوبہ بندی کے ہوتے نہ افزائش نسل کی روک تھام کامیاب نظرآرہی ہے اور نہ ہی کتوں کی فطرت، خصلت اور درندگی کوہی ختم یا قابو پایا جاسکا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کتوں کی افزائش نسل کوروکنے کیلئے کچھ نئے اقدامات تلاش کئے جانے چاہئے، اس حقیقت کو خاطرمیں رکھتے ہوئے کہ اڑھائی سال کی مدت میں کتوں کے ۷۲؍ جوڑے پیدا ہوتے ہیںاور یہی ۷۲؍ جوڑے اگلے اڑھائی سال کی مدت کے دوران کثرت میں نئے جوڑوں کی پیدائش اور افزائش کی بُنیادیں ڈالتے جارہے ہیں۔
فی الحال موجودہ منظرنامہ یہ ہے کہ شہری خوفزدہ ہیں، بچے سکول آتے جاتے سہمے اور ڈرے ڈرے نظرآرہے ہیں جبکہ بستیوں کے اندر رابطہ سڑکوں پر لوگوں کاعبور ومرور اب قدرے ناممکن بنتا جارہاہے ۔ اس ناکامی کیلئے سرینگر میونسپلٹی کے سربراہ اور دوسرے بلدیاتی اداروں کے منتظمین کو مبارکباد اور شکریہ ہی پیش کیا جاسکتا ہے کہ وہ درندوں کی صحت اور سلامتی اور بقاء کے لئے ہر ممکن اور ہر سطح پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔