حکومت نے وقف معاملات کے حوالے سے اپنے پارٹی ایجنڈا کو اپنے مخصوص نظریات، موقف اور سیاسی اہداف کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے منطقی انجام تک پہنچادیا، حکومت اپنی اس کامیابی پر نازاں ہے اور جشن بھی منارہی ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوںنے گرما گرم بحث کے بعد نئے وقف قانون کی منظوری دی۔ حکومت اپنے اس ایجنڈا کو کامیابی سے ہم کنار نہیں کرتی اگر اس کے کچھ حکومتی اتحادی… نتیش کمار ، چندرا بابو نائیڈو اور درپردہ خود ساختہ ضمیر کی آواز پر اڈیسہ کے کچھ اپوزیشن ممبران کی حمایت حاصل نہیں ہوتی، حقیقت یہ ہے کہ ان اتحادیوںنے اپنے تحفظ اقتدار اور مرکز سے اپنی اپنی ریاستوں کیلئے مزید مراعات اور مالیاتی حجم میں اضافہ کرنے کے اپنے ہدف کو یقینی بنانے کیلئے اپنا تعاون پیش کیا۔
بہرحال دونوں ایوانوں میں موجود اپوزیشن ارکان نے کھل کر مخالفت کی، حکومت پر آئین کو ایک اور راستے کو اختیار کرکے بلڈوزکرنے کا الزام لگایا جبکہ حکومت کی جانب سے وقف ترمیم کے حق میں کئی ایک دُور دُور کی کوڑیوں کا ملبہ اکٹھاکرکے اپنے منشا اور ایجنڈا کا دفاع کیا۔ ایک بڑی دلیل دفاع میں یہ بھی دی گئی کہ کئی ایک اسلامی ممالک میں وقف قوانین کے تعلق سے ترمیمات اور تجدیدات کی جاتی رہی ہے تو ہندوستان میں کیوں نہیں؟ ایک دلیل دفاع میں یہ دی جارہی ہے کہ اس ترمیمی قانون کی رئو سے غریب مسلمانوں کو بہت فائدہ ہوگا اور وہ راحت محسوس کریں گے۔ ترمیم کی رئو سے اگر کوئی غیر مسلم انتظامی سطح پر منسلک ہوگا تو اسے مذہبی معاملات میں مداخلت کے حوالہ سے کوئی کردارنہیں ہوگا۔ اس طرح کی کئی ایک مزید دلیلیں بھی دفاع یا اتمام حجت کے طور پیش کی گئیں ہیں۔
ان دفاعی دلیلوں کی کوئی بُنیاد نہیں ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ جن اسلامی ممالک کا حوالہ دیا جارہاہے ان کا کہیں وجودہی نہیں، اگر چہ دُنیاکے نقشے پر کئی مسلم ممالک کادعویٰ ہے کہ وہ اسلامی ہیں، جیسے پاکستان، سعودی عربیہ، انڈونیشیا ، ترکیہ وغیرہ کا حوالہ دیا جاسکتا ہے ۔ وہ مسلم ممالک ہیںلیکن اسلامی نہیں۔ پھر بھی اگر یہ دلیل یادعویٰ تسلیم کربھی لیاجائے کہ یہ اسلامی مملکتیں ہیں توان کے قوانین، قوائد وضوابط وغیرہ کے جو کچھ بھی معاشرتی، حکومتی، انتظامی معیارات ہیں انہیں ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے پیمانہ یا معیارات قرار نہیں دیاجاسکتاہے۔
وقف معاملات کی شرعی حیثیت ہے، جبکہ کوئی غیر مسلم وقف سے نہ استفادہ حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی اس کا کسی بھی حوالہ سے ملازم یا تنخواہ یا کسی اور مراعات کا حقدار یا اہل ہے۔ لیکن ترمیمی قانون کے راستے اس مقصد کیلئے بھی ہموار کئے جارہے ہیں۔ پارلیمان میں حاصل عددی طاقت کے بل پر وقف قانون میں ترمیم کی گئی، منظور بھی کی گئی اور اب قانون کی حیثیت سے اس کا نفاذ بھی ہونے جارہا ہے۔ لیکن اس سیڑھی کو استعمال کرکے آئین میںدرج تحفظات اور ضمانتوں کا جو حشر کیا گیا ، جس کند چُھرا سے ان تحفظات اور ضمانتوں کو ذبح کیاگیا اس سے یقیناً آئین کے بانی ڈاکٹر امبید کر اور دوسرے جنہوںنے آئین سازی میںاپنا کردارادا کیا ان کی روح ان کی سمادھیوں میں بے چین اور کروٹیں بدلتی رہی ہوں گی۔ یہ قانون درحقیقت ان کے نظریات صوابدید اورتحفظات کے ساتھ ساتھ ان کے گنگا جمنی تہذیب اور کثرت میںوحدت کے ان کے فلسفے اور نظریات کا سفاکانہ قتل بھی ہے اور تاریخ کے حوالہ سے بدترین توہین بھی ہے ۔
بے شک اپوزیشن کو اس مخصوص معاملے پر شکست ہوئی، اپوزیشن نے ترمیمی بل کے حوالہ سے جو تجاویز پیش کی تھی انہیں پارلیمان کی مشترکہ کمیٹی کیلئے نامزد حکومتی ارکان نے مسترد کردیا، جموں وکشمیر کے میرواعظ مولوی عمرفاروق اور دوسرے کئی جید علماء اور مشائخ نے جو کچھ تجاویز مشترکہ کمیٹی کے روبرودہلی جاکر پیش کی تھی انہیں بھی کسی خاطر میں نہیں لایاگیا، یہ طرزعمل ڈکٹیٹر شپ ، انتہا پسندانہ انداز فکر اور ہجومی طاقت کی عملی تصویر ہے۔ اس کے آگے تو اور کوئی سوالیہ نہیں ۔
حکومت مسلسل دعویٰ کرتی رہی کہ وقف کی آڑ میں ملک کے مسلمان آبادی اور ان سے وابستہ مختلف اداروں اور بورڈوں کے پاس لاکھوں ایکڑ وقف اراضی اور جائیدادیں ہیں جن میں سے ایک حصہ ایسا بھی ہے جو بقول ان کے جبری قبضہ اور جبری تجاوزات کے دائرے میں آتا ہے۔ لیکن معاملات پر گہری نگاہ رکھنے والوں نے ان حکومتی دعوئوں کو بار بار مسترد کردیا اور پلٹ وار کرتے ہوئے ملک کے چند ایک غیر مسلم اداروں اور نامور مندروں کی ملکیت میںوقف سے کہیں زیادہ بلکہ کئی گنا اراضی اور املاک کے حوالہ سے دستاویزی ثبوت پیش کئے ۔ لیکن حکومت مندروں سے منسلک ان جائیدادوں سے پریشان نہیں البتہ وقف جائیدادوں نے اس کی نیندیں ضرور حرام کررکھی ہیں۔ یہی وہ معاملہ ہے جو نظریاتی تضادات کا مجمعہ بھی ہے کے حوالہ سے حکومت کی اصل نیت اور منشا کو بے نقاب کررہاہے۔
بہرکیف پارلیمان میں وقف پر ’’جنگ ‘‘ ختم ہوچکی ہے ، لیکن معاملہ ختم نہیں ہوا ہے۔ کانگریس ڈی ایم کے اور مسلمانوں کی کچھ تنظیموں نے معاملہ کو سپریم کورٹ میںلے جانے کا اعلان کردیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے یہ دلیل پیش کی جائے گی کہ یہ ترمیمی قانون آئین میںدرج تحفظات اور ضمانتوں کی نفی ہے اور حکومت نے اس ایک اور راستے آئین کو بالکل اُسی طرح سے بلڈوز کردیا ہے جس طرح اُتر پردیش ، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور کچھ دوسرے علاقوں میں محض ذاتی پسند اور ناپسند کی بُنیاد پر قانون کو حاشیہ پر رکھ کر جائیدادیں باالخصوص مسلمانوں کی جائیدادیں ، مساجد اور مذہبی مقامات پر ناجائز تجاوزات کا لیبل چسپاں کرکے بلڈوز کرنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے اگر چہ سپریم کورٹ نے ایسے بلڈوز کے انصاف کو ناپسندیدہ طریقہ کار قرار دے کر ایسی کارروائیوں سے اجتناب کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔
ظاہرہے سپریم کورٹ راتوں رات اس مخصوص معاملے پر سماعت نہیں کرے گی بلکہ یہ ایک طویل راستہ ہے جس کو طے کرتے کرتے سالوں بھی بیت سکتے ہیں لیکن فیصلہ نہیں آئے گا۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ واقعاتی مشاہدہ ہے۔جموں وکشمیر عدالتوں کے اس مخصوص طرزعمل سے ہوکر گذرا ہے اور فی الوقت بھی مسلسل مشاہدہ میںہے۔ جموں وکشمیر کے تعلق سے اس وقت بھی کئی معاملات ملک کی اس اعلیٰ عدالت کے روبرو التواء میں ہیں۔ نہ سنوائی ہورہی ہے اور نہ ہی کوئی پیش رفت۔ ان میں سے کچھ ایک معاملات کا تعلق عوام کے لئے ترسیل انصاف حقوق کے تحفظ اور معیشت سے ہے ۔