نئی دہلی// بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے کرناٹک کی کانگریس حکومت کی طرف سے بجٹ میں مسلمانوں کو سرکاری ٹھیکوں میں چار فیصد ریزرویشن دینے کے اعلان کو خوشامد کی سیاست کی نئی جہت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کانگریس ایسے فیصلے کرکے ملک کے لیے کام کرنے والے مسلمانوں کی آواز کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔
بی جے پی کے سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے آج پارٹی کے مرکزی دفتر میں ایک پریس کانفرنس میں اس خیال کا اظہار کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ موضوع ریاست کرناٹک کا ہے لیکن اس کا اثر ملک گیر ہے۔ یہ موضوع مسٹر راہل گاندھی اور محترمہ سونیا گاندھی کی سوچ سے متعلق ہے۔
مسٹر پرساد نے کہا کہ کرناٹک حکومت نے مسلمانوں کے لیے چار فیصد ریزرویشن کا اعلان کیا ہے۔ اب تک ریزرویشن صرف نوکریوں تک محدود تھا، اب سرکاری ٹھیکوں میں بھی ریزرویشن ہو رہا ہے۔ یہ کانگریس پارٹی اور راہل گاندھی کی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی اس غیر آئینی اور قوم کو کمزور کرنے والے فیصلے کی شدید مخالفت کرے گی۔
انہوں نے کہا "تمام خدشات کے باوجود ملک نے کل پرامن طریقے سے ہولی منائی… خواہ وہ اتر پردیش، بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان ہو ہر جگہ پیار، محبت اور ہم آہنگی کے ساتھ ہولی منائی گئی۔ ہندو اور مسلم بھائیوں نے ایک نئی ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن دوسری طرف ووٹ بینک کی سیاست کو ایک نئی جہت دی جا رہی ہے، جیسا کہ کرناٹک میں ہو رہا ہے۔ یہ چیزیں چھوٹی لگتی ہیں لیکن چھوٹی چیزیں بڑی ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ پارٹیاں شاہ بانو، تین طلاق، رام مندر جیسے مسائل کی مخالفت کرتی رہیں لیکن ملک بدل گیا اور بی جے پی جہاں ہے وہیں پہنچ گئی۔ ان جماعتوں نے پارلیمانی انتخابات میں زبانی مہم چلائی تھی کہ بی جے پی آئین میں تبدیلی کرے گی لیکن عوام نے لگاتار انتخابات میں اس کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔ عوام مسٹر نریندر مودی کو کمزور نہیں دیکھنا چاہتے۔
سابق مرکزی وزیر نے کہا کہ بی جے پی اس بات پر زور دینا چاہے گی کہ کرناٹک میں مسلمانوں کے لیے چار فیصد ریزرویشن کی تجویز کو راہل گاندھی کی مکمل منظوری حاصل ہے۔ مسٹر سدارامیا میں خود اس کا اعلان کرنے کی ہمت اور سیاسی طاقت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کی بات کرنے والوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ ریزرویشن سماجی اور تعلیمی پسماندگی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔ ہندوستانی آئین کے تحت مذہبی بنیادوں پر ریزرویشن کی اجازت نہیں ہے۔ مسلمانوں کی خوشنودی کا نیا فیصلہ ملک کے لیے خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا ’’مغربی بنگال میں ہندو مندروں پر حملے ہوتے ہیں، وہاں ہر روز نئی چیزیں ہوتی ہیں۔ میں کانگریس اور اپوزیشن سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ خوشامد کی سیاست کہاں تک جائے گی۔ بی جے پی اس کی مخالفت کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ آندھرا پردیش میں بھی مسلمانوں کو مذہبی برادری کے طور پر چار فیصد ریزرویشن دیا گیا تھا لیکن ہائی کورٹ نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں مذہب کی بنیاد پر کوئی ریزرویشن نہیں ہے۔
مسٹر پرساد نے کہا کہ سرکاری ٹھیکوں میں چار فیصد ریزرویشن مکمل طور پر غیر آئینی ہے۔ مذہب ریزرویشن کی بنیاد نہیں ہو سکتا۔ ریزرویشن صرف سماجی پسماندگی کی بنیاد پر دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے آئین بنانے والے بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی تقاریر کی تالیف سے ایک تقریر کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مسلم کمیونٹی کو درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے ریزرویشن کا فائدہ نہیں دیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں دو طرح کے سلسلے ہیں۔ ایک سلسلہ مولانا ابوالکلام آزاد، عبدالحمید، ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام، رس خاں، رحیم کا ہے اور دوسرا سلسلہ محمد علی جناح کا ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم ملک کو کیسا لیڈر دے رہے ہیں۔
بی جے پی کے لیڈر نے کہا کہ ووٹ بینک کی سیاست نے ان مسلمانوں کی آواز کو کمزور کر دیا ہے جنہوں نے ملک کو مضبوط کیا ہے۔ بی جے پی دراصل ان مسلمانوں کو مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی بنیادوں پر مسلم کمیونٹی کے لیے ریزرویشن غیر آئینی ہے، اس سے خوشامدپسندی کو فروغ ملتا ہے اور قوم کمزور ہوتی ہے۔