اسمبلی کے اجلاس سے افتتاحی خطبے، جس میں لیفٹیننٹ گورنر نے مستقبل کے حوالہ سے حکومتی منصوبوں، عزائم اور ارادوں کا ایک تفصیلی خاکہ پیش کیا پر کشمیرنشین اپوزیشن …محبوبہ مفتی کی قیادت میں پی ڈی پی او رسجاد غنی لون کی قیادت میں پیپلز کانفرنس نے جس ردعمل کا اظہار کیا ہے وہ حیران کن نہیں بلکہ ان کی سیاسی سوچ، موقف اور اپروچ کے حوالوں سے توقعات کے عین مطابق ہے گورنر نے اپنے خطبے میں جو کچھ بھی کہا اس میں اس کا اپنا کوئی ذاتی عمل دخل نہیں بلکہ وہی کچھ پیش کیا جسے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کی قیادت میں حکومت نے تحریری طور ان کے سامنے رکھا۔
جموںنشین اپوزیشن بی جے پی نے غیر متوقع طور سے خطبے کا خیر مقدم کیا البتہ کشمیرنشین اپوزیشن نے خطبے کو نشانہ بنانے کی بجائے عمر حکومت کو نشانہ بنایا۔ پی ڈی پی نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ’’نیشنل کانفرنس جموںوکشمیر میں بی جے پی کی توسیع کے طور پر کام کررہی ہے۔ پارٹی پچھلے چھ سالوں میں بی جے پی کے اقدامات کو جائز قرار دینے کی کوشش کررہی ہے جس میں دفعہ ۳۷۰؍ کی منسوخی اور ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے فیصلے شامل ہیں‘‘۔
سجاد غنی لون نے اپنے تنقیدی ردعمل میں کہا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ یہ پارٹی اب یہ ظاہر کرنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کررہی ہے کہ ان کا دفعہ ۳۷۰؍سے کوئی تعلق نہیں، یہ زوال ہے اور اگر یہ (گورنر کا ) خطاب حکومت کا وژن ہے تو یہ بے بصیرت ہے ۔ اگر بی جے پی حکومت میں ہوتی تو گورنر ایسا ہی خطبہ پیش کرتے۔ اس خطبے میں دفعہ ۳۷۰؍ اور ۳۵؍اے کا کوئی تذکرہ نہیں ، ۵؍اگست کا بھی کوئی حوالہ نہیں جبکہ تنظیم نو کے قانون کا کوئی تذکرہ ہے …‘‘
اپوزیشن عددی اعتبار سے چاہئے بحیثیت مجموعی چار ارکان پر مشتمل ہو یا سو کو یہ حق اور اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے سیاسی منشور اور اہداف کے مطابق مختلف اشوز کے حوالہ سے حکومت کو گھیرے ، تنقید کرے اور عوام کو درپیش مسائل اور معاملات کو اولین ترجیح پر رکھ کرمقدم سمجھتے ہوئے ان کو زبان دے لیکن یہاں جموںوکشمیر میں بدقسمتی سے اپوزیشن کا وہ کردار نظرنہیں آرہاہے ۔بار بار یہی مشاہدے میں آرہا ہے کہ اپوزیشن مخالفت تو کرتی ہے لیکن اُس مخالفت یا تنقید میں مخالفت برائے مخالفت یا تنقید برائے تنقید کا ہی جذبہ کا رفرما ہوتا ہے۔ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ ندائے مشرق کا پہلے دن سے یہ نظریہ اور اپروچ رہا ہے کہ جن آئینی ضمانتوں اور تحفظات کو ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو ختم کردیاگیا وہ غیر آئینی اور غیر جمہوری تھاجبکہ اس حقیقت کو بھی نظرانداز کردیاگیا کہ ان آئینی تحفظات کے ساتھ جموں وکشمیر کے عوام کی والہانہ اور جذباتی وابستگی رہی اور فی الوقت بھی ہے۔ لیکن کیاجموں وکشمیرکے عوام کیلئے یہی حرف آخرہیں؟ جیسا کہ اپوزیشن بار بار بلکہ قدم قدم پر انہی کے حوالہ سے اپنی سرگرمیوں کو جلا بخشتی رہتی ہے۔
فرض کریں کہ نیشنل کانفرنس نے ان مخصوص اشوز پر اپنی زبان بندی کا راستہ اختیار کرلیا ہے حالانکہ ووٹ انہی مخصوص معاملات کے حوالہ سے حاصل کئے گئے لیکن کیا جموںوکشمیر کی کوئی بھی حکومت اور سیاسی پارٹیاںاتنی طاقت رکھتی ہیں کہ وہ اپنے بل بوتے اور پارلیمنٹ میں اپنی عددی حجم کے سہارے دفعہ ۳۷۰، ۳۵؍ اے خصوصی پوزیشن اور ریاست کی تقسیم درتقسیم کے فیصلوں کو الٹ کر بحال کرسکتی ہیں ، جو اب محتاج وضاحت نہیں۔
یہ سوال بھی کیا جارہا ہے کہ کیا نیشنل کانفرنس ان آئینی ضمانتوں کو ختم کرانے کی اکیلی ذمہ دار ہے کیونکہ ماضی میں بلکہ گذرے ۷۷؍سال کے دوران وہ واحد پارٹی ہے جو سب سے زیادہ مدت برسراقتدار رہی۔ کانگریس بھی برسراقتدار رہی ہے ، پی ڈی پی بھی اکیلے اور کانگریس لیڈر شپ کی حیثیت سے اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہے جبکہ لون صاحب کے والد گرامی مرحوم عبدالغنی لون بھی ذمہ دار وزارتی عہدوں پر متمکن رہے ہیں۔ پھر مفتی صاحب مرحوم مرکز میں وزیرداخلہ بھی رہے ہیں۔ تاریخ کے کسی ورق کا حوالہ دیتے ہوئے آج کی نوجوان نسل کو یہ تو بتائیں کہ ان سبھی سیاسی حضرت نے کیا کبھی ان آئینی ضمانتوں اور آئینی تحفظات کو مضبوط ومستحکم بنانے کی سمت میں کوئی کردارادا کیا ، جواب نفی میں ہے۔
بی جے پی کی حکومتی قیادت اور پارٹی لیڈر شپ نہرو اینڈ کمپنی کو پانی پی پی کر ان اشوز کے تعلق اور تناظرمیں کوستی رہتی ہے اور نشانہ بنارہی ہے اوران آئینی ضمانتوں کو اپنے بل اور فیصلہ سازی کے حوالہ سے ختم کرنے کا سہرا اپنے سرباندھ رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پہلے وزیراعظم نہرو تھے جس نے کشمیر کے ساتھ بدترین عہد شکنی کرتے ہوئے دفعہ ۳۷۰؍ کے خاتمہ کی بُنیاد رکھی، ان کے وزیر داخلہ گلزاری لال نندہ کی وہ تقریر پارلیمنٹ کے ریکارڈ پر آج بھی کہیں دستیاب ہوگی جس میں وہ دفعہ ۳۷۰؍ کو اندرہی اندر سے ختم کرنے کا مژدہ پارلیمنٹ کو سنارہے ہیں۔ جموںوکشمیر میں قائم کٹ پتلی حکومتوں… بخشی غلام محمد، شمس الدین ،غلام محمد صادق، سید میر قاسم کے بعد دہلی کے تعینات گورنروں اور پھر خود نیشنل کانفرنس، کانگریس اور پی ڈی پی کی حکومتیں بھی ان ضمانتوں کے خاموش خاتمے کی سمت میں اپنامخصوص رول اداکرتی رہی۔ اگر تاریخ کا کوئی ورق یا باب ان زمینی حقیقتوں کے برعکس ہے تو مہربانی کرکے ہمیں بتائیں ہم اپنی یاداشت اور ریکارڈ کو معافی مانگ کر درست کریں گے۔
ان معاملات کے تعلق سے داستانیں اور کہانیاں طویل ہیں جن کا حوالہ یہاں دینے کیلئے جگہ دستیاب نہیں، لیکن کشمیر کی سرزمین پر ان دیاتنداراورمخلص شخصیات کی فی الوقت بھی کوئی کمی نہیں جن کے سینوں میںیہ قصے اور کہانیاں موجود ہیں۔ لہٰذا اس سارے تناظرمیں آج کی تاریخ میں اپوزیشن کے نام پر جو بھی کوئی اپوزیشن کا کردار اداکررہاہے اور بیانات کے میزائل داغتے ہوئے ایک دوسرے پر دکھاوے کی سبقت کی دوڑ میں نظرآرہے ہیں وہ ذرا ا پنی بندقبا کو کھول کر اس میں جھانکیں، ضرور انہیں ماضی کے حوالہ سے اپنے ہی اسلاف کے کشمیر دُشمن کردار باالخصوص اپنے حصول اقتدار اور تحفظ اقتدار کی خاطر ان کے ضمیروں کے جلنے کی بدبو نتھنوں میں گھستی محسوس ہوگی۔
سچ یقیناً بہت کڑوا ہے لیکن ہم زہر ہلاہل کو قند بھی کہنے کے قائل نہیں۔ سچ یہی ہے کہ کشمیر کا ہر سیاستدان اور ہر سیاسی قبیلہ اقتدار اور ہوس کا بھوکا ہے ، وہ کشمیر کا استحصال اور عوام کے جذبات کا خون کرنے سے نہ کبھی ہچکچایااور نہ حال اور مستقبل کے تعلق سے ہوس گیری کے اس راستے پر گامزن ہونے سے اجتناب کرے گا۔ اس سیاسی قبیلے کا تعلق اور واسطہ چاہئے قومی دھارے سے رہا ہے یا علیحدگی پسند نظریات کے حامل سیاسی جتھوں سے !