کشمیر اور جموں دونوں خطوں میں حالیہ برسوں میںجس تعلیمی نظام کو پروان چڑھایا جاتا رہا اُس میں موجود خامیوں کی نشاندہی مسلسل طور ہوتی رہی لیکن ان خامیوں کو دو رکرنے کی بجائے ان کا اعادہ کیا جارہا ہے۔ جس تعلیمی نظام اور نصاب کو بچوں کی تعلیم وتربیت کیلئے متعارف کیاجاتارہا وہ بچوں کی تعلیمی ضروریات، ان کی تعلیمی نشو ونما اور مستقبل کے حوالہ سے چیلنجوں سے نمٹنے کی اپنے اندر زیادہ صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس حوالہ سے ذمہ داری کی نشاندہی کی جائے تو سیکریٹریٹ سطح کا انتظامی سیٹ اپ، دونوں صوبوں کے ناظم اور جموں وکشمیر بورڈ براہ راست ذمہ دار ٹھہرائے جاسکتے ہیں۔
درس وتدریس کے تعلق سے زمین کا حصول اور اس پر شاندار عمارت کی تعمیر کا نام نہیں بلکہ نصاب کی ترتیب وتدوین، بچوں کی تعلیمی نشوونما اور انہیں آنے والے چیلنجوں سے عہدہ برآں بنانے کی سمت میں اقدامات خاص توجہ کے حامل ہیں۔ لیکن جموںوکشمیر میںان کے بالکل اُلٹ محسوس بھی کیا جارہاہے اور دیکھا بھی جارہاہے۔ اس حوالہ سے جموںوکشمیر بورڈآف سکول ایجوکیشن کا گذرے برسوں کے دوران جو کچھ بھی کردار اور طریقہ کار رہاہے وہ اس تباہی کا براہ راست ذمہ دار ہے ۔ کبھی نصابی کتب میںشامل مضامین کے انتخاب کے حوالہ سے عوامی خواہشات کو نظرانداز کرکے من مانیوں کا تسلط ، کبھی تاریخ کے حوالہ سے معاملات اور واقعات کا ان کے سیاق وسباق سے ہٹ کر اورتوڑ مروڑ کر پیش کرنے کی آوارہ گرد ذہنیت کا اپروچ، تو کبھی امتحانات میں بچوں کی شرکت کے تعلق سے تنازعات اور اختراعات کی سرپرستی، ایسے معاملات اور واقعات بورڈ کے ماتھے پر اب عرصہ سے مستقل طور سے بدنما دھبہ تصور کئے جارہے ہیں۔
حالیہ چند ایام کے دوران بھی بورڈ مختلف معاملات اور اپنی روایتی روش ، منفیات اور ناقص کارکردگی کے تعلق سے خبرونظرمیں ہے اور بورڈ کے نااہل حکام کو یہ اخلاقی جرأت بھی نہیں کہ وہ اپنی فاش غلطیوں اور ناقص ترین کارکردگی کیلئے عوام باالخصوص بچوں سے معذرت کریں۔ اس آمرانہ طرز عمل کی بُنیاد دراصل اُن اعلیٰ سطح پر حکومتی اور ایڈمنسٹریشن کی طرف سے اُٹھائے جاتے رہے اقدامات اور فیصلوں کی مرہون منت ہے جو حالیہ برسوں کے دوران لئے جاتے رہے ہیں۔ ایک کا تعلق بورڈ کے اُن ملازموں جو ادھ پڑھ تھے لیکن انہیں وقفے وقفے سے سینئر اہلکار قرار دے کر گزیٹیڈ پوسٹوں پرترقیوں سے نوازا جاتارہا، دوئم حکومتی اور ایڈمنسٹریشن کی جانب سے بورڈ کے اعلیٰ عہدوں پر وقت وقت کے منظور نظروں کی تقرریوں اور تعیناتیوں کی مرہون منت سمجھے جارہے ہیں۔ بورڈ کے اعلیٰ عہدوں کیلئے صرف سفارشیوں کی تقرریاں عمل میںلائی جاتی رہی ہیں یا انہیں جو وقت کے حکمرانوں کے ساتھ سیاسی وابستگی یا وفاداری کا ’حلف نامہ‘ ہاتھ میں لے کر اقتدار کی گلیاریوں میںدوڑ تے نظر آتے رہے ہیں۔ حکومت نے ابھی حال ہی میں اس کے چیئرمین کی معیاد ملازمت میں توسیع کا پروانہ جاری کیا اس حقیقت کے باوجود کہ خود اسی حکومت نے اقتدار میں دو ماہ قبل آتے ہی کسی کی بھی معیاد ملازمت میںتوسیع نہ دینے پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔
بورڈ حکام کی سرپرستی میںایک اور گل اُسوقت کھلایا گیا جب دسویں جماعت کے ایک امتحانی سوالنامہ میں ایک سوال کے چار غلط جواب تحریر پائے گئے۔ یہ تاریخ کے اعتبار سے کوئی معمولی غلطی نہیں بلکہ ناقابل معاف سنگین جرم ہے۔ لیکن کیا مجال کہ بورڈ کا توسیع ملازمت سے مستفید چیئرمین اس مخصوص سوالنامہ کو مرتب کرنے والے (والوں) اور پھر سوالنامہ کو حتمی طور سے منظوری دینے والوں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کی جرأت کرے کیونکہ بحیثیت ناظم وہ خود مجرموں کے کٹہرے میںکھڑا ہے کیونکہ وہ ذمہ دارانہ رول اداکرنے سے قاصر ہے یا بچوں کے حال اور مستقبل کے مفادات کے حوالہ سے مجرمانہ غفلت کا اعادہ کرتا جارہاہے۔ یہ مجرمانہ کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے جو بچوں کی ذہنی نشوونما، درس وتدریس اور تربیت کے بُنیادی معیار اور اصول پر اُتر نہیں پارہے ہوں۔
انہی دنوں بہت سارے بچوں کو امتحانات میں شرکت کے نااہل قراردیاگیا جبکہ کئی ایک بچوں کی شکایت یہ بھی ہے کہ انہیں امتحانی حال میں داخل ہوکر امتحان میں اس لئے شرکت کی اجزت نہیں دی گئی کیونکہ بقول نگران عملے کے انہیں تحریری اجازت نامہ موصول نہیںہوا،کسی کی رول نمبر سلپ غائب تو کسی کا امتحانات میںشرکت کیلئے داخل فارم لاپتہ۔ کیا بورڈحکام ان پڑھ، جاہل اور گنوار ہیں کہ وہ معاملات کا فہم نہیں کرسکتے ؟ یہ سارا کچھ کشمیرمیں ہی کیوں ہورہاہے ؟ کیا اس کے پیچھے کسی فاشسٹ طریقہ کار کاعمل دخل ہے یا کوئی انتظامی مصلحت ؟ بورڈ کا موجودہ چیئرمین اور دوسرے ذمہ داراس حد تک آمر بن چکے ہیں کہ وہ عدالتوں کے احکامات کو بھی کسی خاطرنہیں لاتے۔
دوسرے کئی معاملات بھی ہیںجو وقفے وقفے سے منظرعام پر آتے رہے ہیں جن واقعات اور معاملات نے بورڈ کی کارکردگی اور اس کے نظم ونسق کے ذمہ داروں کی صلاحیتوں اور اہلیتوں پر بدنما دھبے چسپاں کررکھے ہیںلیکن ان کے باوجود ان کو ندامت ہے اورنہ شرمندگی، یہ شرم پروف ہیں اور ڈھٹائی اور بداخلاقی کے ایسے علمبردار بھی جن کی کہیںسے مثال نہیں ملتی ۔
لوگ حکومت سے پوچھ رہے ہیں ۔ کیا کشمیرمیںکوئی ایک بھی اہل علم، صاحب دانش اور صاحب صلاحیت اور ماہر تعلیم نہیں جس کو چیئرمین کے عہدے پر تعینات کرکے بورڈ کی اس گند کو صاف کرنے کا کوئی راستہ ہموار کیا جاسکے؟ کیوں یہ ضروری ہے کہ سیکریٹریٹ کے ہی کسی منظور نظر اور سیاست ذدہ کو ہی بورڈ کا چیئرمین تعینات کیاجاتار ہے۔ اس حقیقت اور ریکارڈ کے باوجود کہ حالیہ برسوں کے د وران جس کسی ایسے شخص کو بورڈ کا چیئرمین تعینات کیاجاتا رہا وہ جموں وکشمیر کے تاریخی ، تہذیبی اور منفرد ثقافتی معاملات اور واقعات کو نصاب سے ہٹاتا رہا یا سیاق وسباق سے ہٹ کر معاملات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا رہا جبکہ حالیہ ایام میں جتنے بھی نااہلیت کے معاملات کشمیرکے حوالہ سے منظرعام پر آتے رہے وہ الگ سے ہیں۔
جہاں تک جموں وکشمیر میں مروجہ طرز تعلیم کے حوالہ سے معاملات کا تعلق ہے یہ طر زتعلیم دو متوازی خطوط پر مروج ہے۔ ایک کا تعلق مرکزی بورڈ سے ہے جبکہ دوسرے کا تعلق جموںوکشمیر بورڈ سے ہے۔ نجی سیکٹر سے وابستہ تقریباً سارے سکول مرکزی تعلیمی بورڈ سے وابستہ ہیں جبکہ سرکاری تعلیمی ادارے مقامی بورڈ سے وابستہ ہیں۔ بہتر ہوتا اگر اس دوہرے طرز تعلیمی نظام پر سرنو غور کیاجائے تاکہ جموں وکشمیرکے تعلیمی ڈھانچہ کو اس کے تمام تر خدوخال کے ساتھ اُسی ایک طرز تعلیم پر استوار کرنے کا راستہ ہموار ہو سکے۔