جموں خطے میں جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں میں اضافہ ریکارڈ کیاجارہاہے۔مختلف نوعیت کے جرائم سے وابستہ مجرمان اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کا دائرہ پھیلاتے جارہے ہیں ۔ دن ہو یا رات مکینوں، راہگیر وں اور ڈرائیوروں کو نشانہ بنا یاجارہا ہے۔ دہشت گردوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد اب کھلے بندوں گولی بارود کا بھی استعمال کررہے ہیں۔
ان مجرمانہ سرگرمیوں اور پے درپے وارداتوں کے تناظرمیں اگر چہ پولیس حرکت میں آرہی ہے لیکن جموں کے لوگوں کو اُسوقت حیرت ہوئی جب پولیس کے ایک سینئر آفیسر نے ایک روایتی سا بیان مشورہ کی صورت میں دیتے ہوئے لوگوں سے کہا کہ وہ مجرموں کے خلاف ’صف آرا‘ ہو جائیں۔ حالیہ ایام میں کچھ ایسی سنسنی خیز وارداتیں پیش آئی جن سے آبادی تشویش میں مبتلا ہوئی اور جموں خطے باالخصوص جموں شہر اوراسکے مضافات میںتیزی سے بگڑتی لااینڈ آرڈر صورتحال کے ہوتے وہ بے چینی محسوس کررہے ہیں۔
گذشتہ ہفتے گجر نگرسے متصل پُل پر ایک معمر کشمیری خاتون ان مجرمانہ سرگرمیوں کا اُس وقت نشانہ بنی جب سماج دُشمن اور مجرمانہ ذہنیت کے حامل کچھ افراد نے اس کو نشانہ بنایا، اس کے کانوں سے سونا کی بالیاں اُڑا کر خاتون کو زخمی حالت میںروتا بلکتا چھوڑ گئے۔خاتون کے ساتھ اس کی بیٹی نے شور مچایا لیکن کوئی راہگیر اس کی مدد کو آگے نہیں بڑھا، شدید ردعمل میں خاتون نے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کو یہ کہکر صلواتیں سنائی کہ کیا اسی لااینڈآرڈر کے لئے لوگوںنے انہیںووٹ دے کر اقتدار کی کُرسی پر بٹھا دیا۔
چند روز قبل جیول چوک میں ایک شہری کو گولی مار کر قتل کردگیا اور قاتلوں کی مسلح ٹولی بڑے آرام کے ساتھ اپنی گاڑی میں سوار ہوکر جائے واردات سے چلتے بنے ۔ پولیس نے اس واقعہ کو گینگ وار کا نتیجہ قرار دیا تو کسی حلقے کی طرف سے اس مخصوص واقعہ کو کسی اور اشو کا شاخسانہ قراردیا جارہا ہے ۔ قاتلانہ حملے میں ملوثین کو گرفتار کیاگیا کہ نہیں اس بارے میں فی الحال کوئی جانکاری دستیاب نہیں۔۲۶؍۲۵ کی شب کے دوران کشتواڑ سے آئی ایک مسافر بس کا ڈرائیور بس میں سوگیا لیکن رات کے دوران اُس کے دعویٰ کے مطابق چور گاڑی میں گھس کر گاڑی میںموجود گیارہ ہزار روپے لوٹ کرفرار ہوگئے۔ صبح ہوتے ہی وہ متعلقہ پولیس سٹیشن معاملہ رپورٹ کرانے پہنچ گئے لیکن اس کے بیان کے مطابق پولیس نے یہ کہکر خالی ہاتھ لوٹا دیا کہ وہ یوم جمہوریہ کے سلسلے میں مشغول ہیں لہٰذا رپورٹ درج کرانے کیلئے اگلے دن آجائو۔ اس علاقے میں موجود کئی ڈرائیوروں نے دعویٰ کیا کہ رات کے اندھیرے میں ان کی گاڑیوں سے پیٹرول ؍ڈیزل کی چوریوں کی مسلسل وارداتیں پیش آرہی ہیں لیکن معاملات رپورٹ کرنے کے باوجود ایک بھی چور کو ابھی تک نہیں پکڑا جاسکا ہے۔
ان مجرمانہ سرگرمیوں اور پے درپے واقعات کے تعلق سے سول سوسائٹی میںجو کچھ محسوس اور کیاجارہا ہے وہ غور طلب ہے جبکہ ان محسوسات کو یونہی مفروضہ قرار دے کر نظرانداز نہیںکیا جاسکتا ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ قریبی ہمسایہ ریاستوں سے مجرمانہ ذہنیت کے افراد جموں آکر مجرمانہ وارداتیں انجام دے کر سڑک اور ریل کے راستے آسانی سے فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ منشیات کی بڑھتی وبا اور منشیات کی خریداری کیلئے درکار رقم کا حصول آسانی سے چونکہ ممکن نہیں لہٰذا اس لت میں مبتلا نشی افراد مجرمانہ سرگرمیوں کاراستہ اختیار کررہے ہیں اور یہ ایک بہت بڑی وجہ ہے ۔ تیسرے رائے یہ ہے کہ چونکہ زندگی کے مختلف شعبوں کے تعلق سے روزگار کے حصول کی راہیں ہرگذرتے روز کے ساتھ مسدود ہوتی جارہی ہیں لہٰذایہ بھی ایک اہم وجہ ہے کہ جموں خطے میں مجرمانہ سرگرمیوں کاگراف بڑھتا جارہا ہے۔
جو کچھ بھی وجہ ہے اُن وجوہات میں بحث وتکرار اور اُلجھنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی لااینڈآرڈر سے وابستہ کوئی بھی ادارہ اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کی انجام آوری کے لئے اس عذرلنگ کی آڑ لینے میںحق بجانب ہوسکتا ہے۔ یہ ایک سنگین معاملہ ہے اور عوامی حلقوں میں بڑھتی فکر مندی، بے چینی اور تشویشات واجبی ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ متعلقہ ادارے بیان بازی کے راستے اختیار کرنے کی روایت کے خول سے باہر آکر سنجیدگی کے ساتھ اس اشو کو ایڈریس کرے۔
دیکھاجائے تو دُنیا کا کوئی خطہ نہیں یا معاشرہ نہیں جہاں مجرمانہ ذہنیت کے کچھ نہ کچھ ہاتھ ہردم موجود رہتے ہیں اور لاکھ کوششوں اور نگرانی کے باوجود وہ اپنی مجرمانہ سرگرمیوں سے بازنہیں آتے ہیں کیونکہ مجرمانہ وارداتیں انجام دینا ان کے ڈی این اے میں موجود ہے اُس DNAکوکوئی قانون ختم نہیں کرسکتا البتہ کچھ طریقے اور راستے ضرور دستیاب ہیں جن کو برئوے کار لاکر ان مجرمانہ سرگرمیوں پر قدغن لگائی جاسکتی ہے۔
لیکن ایسا اُسی وقت ممکن ہے کہ جب متعلقہ ادارے خود کورپشن، بدعنوان طرزعمل اور معاونتی کردار اور سرپرستی ایسی لعنت کے راستوں سے پاک وصاف ہوں۔ جموں وکشمیر کے حوالہ سے جب بات کی جاتی ہے تو معاملہ واضح اور صاف ہے۔ وہ کون سیا پویس اسٹیشن اور پویس چوکی ہے جو اپنے دائرہ اختیار والے علاقوں کی خیر وخبر نہیں رکھتا اور مکینوں کی پرسنل فائلیں مرتب کر کے اپنے ریکارڈ کا حصہ گذرے ۳۵؍ برسوں کے دوران خاص طور سے نہیں بنائی،لہٰذا اس کے ہوتے مجرموں پر کڑی نگاہ رکھنا اور ان کی سرگرمیوں پر مناسب حد تک قدغن لگانا امن وقانون سے وابستہ اداروں کیلئے ناممکن ہے اور نہ مشکل ۔
اگر دہشت گرد عنصر کا ٹریک رکھا جاسکتا ہے ، جدید ترین سائنسی آلات اور ٹیکنالوجی کی مدد سے انہیں گرفت میں لایا جاسکتا ہے تو چوری چکاری ،لٹیرانہ سرگرمیوں، نقب یا ان سے مشابہہ دیگر وارداتوں میں ملوثین تک رسائی کیوں ممکن نہیں؟ اگر چور، نقب زن، راہ زن، لٹیرے اور بدمعاش اپنی طریقہ واردات تبدیل کرسکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور کیوں نہ رکھ سکتے جب کہ ان کی ذہنیت ہی مجرمانہ ہے تو امن وقانون سے وابستہ ادارے تو ہر دستیاب وسائل اور جدید ٹیکنالوجی سے مزین ہے وہ بھی تو اپنی عمل آوری کا طریقہ تبدیل کرنے کی بہتر صلاحیت رکھ سکتے ہیں۔