یہ آج کی نہیں بلکہ ۱۹۴۷ء سے لے کر برابر آج تک کشمیر کے تعلق سے کوئی بھی اشو زیر بحث آجائے یا اس کی طرف توجہ مبذول ہوجائے تو مخصوص ذہنیت اور سوچ کی حامل میڈیا کا ایک حصہ اپنے تمام تر لنگر لنگوٹے کس کر میدان میں اُترآتا ہے ،اُن اشو ز کو لے کر ہیڈ لائنز کے انبار کھڑا کرتا ہے اور بے لاگ تبصروں اور تجزیوں کے نام پر جہاںدُنیا بھر کی غلاظت کے ہمالیہ کھڑا کرنے کیلئے کشمیر کی تاریخ ، اس کے ماضی، کشمیرکی منفرد حیثیت اور تشخص اور وقفے وقفے سے سیاسی وغیر سیاسی سطح پر پیش آمدہ حالات واقعات کو ان کے سیاق وسباق سے ہٹ کر اور توڑ مروڑ کر پیش کرکے اینکراور پیش کار فخر سے اپنے سینے تان کر کچھ ایسا تاثر دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں جیسے کہ انہوںنے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہو۔
جموںوکشمیرکے ایک سابق گورنر ست پال ملک نے میڈیا کے اس مخصوص ذہنیت کے حامل حصے کو ’’عفریت‘‘ قرار دیا تھا اور انہیں مشورہ دیا تھا ، ایک بار نہیں بلکہ باربارکہ وہ کشمیراور کشمیری عوام کے حوالہ سے اس گند اور کردارکشی سے ملک کے وسیع تر مفادات میں اپنے ہاتھ پیچھے ہٹالیں لیکن یہ میڈیا گھرانے اپنی فطرت سے بازنہیں آرہے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے ہی وہ اپنے کاروباری مقاصد اور عزائم کی تکمیل کو ممکن بنا رہے ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے سرپرست اور سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق نے اگلے روز جموں میں ایک تقریب سے خطا ب کے دوران آئین کی دفعہ ۳۷۰ کے بارے میں کہا کہ ’ یہ دفعہ کشمیریوں کیلئے نہیں تھی بلکہ مہاراجہ نے جموں کے ڈوگروں کے تحفظ کیلئے بنائی تھی تاکہ پنجاب اور دوسرے حصوں سے لوگ اپنے سرمایہ کے بل پر قابض نہ ہونے پائے۔ فاروق عبداللہ کے اس بیان کی صدائے باز گشت ابھی پوری طرح سے سنائی ہی نہ دے رہی تھی کہ کچھ میڈیا ہائوس اپنی روایت اور فکر کے ہاتھوں مجبور ہو کر تمام تر لنگر لنگوٹے کس کر میدان میں اُتر گئے، نام نہاد اور خود ساختہ سیاسی وغیر سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کو اکٹھا کرکے جو جس کے منہ میں آیا اُسے اگلوایا گیا۔ بحث کا بین السطور نچوڑ یہ پیش کیاگیا کہ ۳۷۰؍ کے بارے میں فاروق نے ایک اور یوٹرن لے لیا، کہا کشمیرکے لئے ۳۷۰؍ نہیں تھا جبکہ کشمیر نشین کچھ ایک سیاسی پارٹیوں سے وابستہ کچھ سیاسی طفل مکتب نے بھی اپنے دلوں کی بھڑاس نکالنے کا موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
نیشنل کانفرنس کا الیکشن کے دوران، اس کے بعد یا اس سے قبل جو کچھ بھی موقف ۳۷۰؍ کے بارے میں رہا ہے اُس پر بحث نہیں، بلکہ توجہ طلب بات یہ ہے کہ اب کی بار فاروق عبداللہ نے اس مخصوص دفعہ کے تاریخی تناظرکے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ صحیح ہے یا غلط اور جو لوگ اب اس بیان کے تناظرمیں اپنی اپنی آراء کے ساتھ جلوہ گر ہورہے ہیں انہیں اس مخصوص قانون کی تاریخی حیثیت کا کتنا علم ہے؟ یہ ایک تاریخی سچ ہے کہ مہاراجہ نے ۱۹۲۷ء میں اس مخصوص قانون کو جموں کے ڈوگروں کی شناخت مخصوص تشخص زمین اور نوکریوں کو تحفظ دینے کیلئے وضع کیا جس قانون کو وضع کرنے کی سمت میں مہاراجہ کے دربار میں کام کرنے والے کشمیر ی پنڈت دربار یوں نے بھی اپنے حال اور اپنے مستقبل کے تعلق سے فکر مند ہوکرتائید وحمایت کی، چنانچہ قانون بن گیا اور اس قانون کا اطلاق ریاست کی حیثیت سے اس کے تمام سٹیک ہولڈروں کیلئے قدرتی طور سے نافذ العمل بن گیا۔ کشمیراور کشمیری مستثنیٰ نہیں تھے۔
آزادی کے بعد اس قانون کی اہمیت اور زیادہ واضح ہوکر سامنے آئی نتیجتاً اس مخصوص قانون کے ساتھ کشمیر کی جذباتی وابستگی گہری ہوتی گئی جو پھر سیاسی نظریے کے حوالہ سے کشمیرکی سیاسی اساس کے طور پر بھی اُبھر کرسامنے آیا۔
جو لوگ چاہے میڈیا سے وابستہ ہیں،سیاست سے وابستگی رکھتے ہیں یا کسی اور شعبے سے ان کیلئے اس کے تاریخی پس منظرکی جانکاری رکھنا لازمی ہونی چاہئے نہ کہ آج کی تاریخ میں اپنی سیاسی ضرورت اور کسی دوسرے ازم کی مصلحتوں کے تابع رہ کر اپنے خیالات کا اظہار ،کچھ دوسرے سیاسی ورکر جن کا بُنیادی تعلق جموںوکشمیر سے نہیں ہے بھی اپنے سیاسی نظریات اور جموں وکشمیرکے تعلق سے اپنے اختیار کردہ موقفوں کے ہوتے کشمیر کے تعلق سے معاملات کو ان کے تاریخی پس منظراور سیاق وسباق سے ہٹ کر بلکہ توڑ مروڑ کرپیش کرنے کی بیماری میں اس حد تک مبتلا ہوچکے ہیں کہ اب ان کا یہ مرض لاعلاج بن چکا ہے۔
اس قانون کو عموماً یہ کہکر تنقید کا نشانہ بنایاجاتا رہا کہ اس کے ہوتے مغربی پاکستان کے پناہ گزینوں، پنجاب سے والمیکی آبادی اور کچھ دوسرے زمروں سے وابستہ لوگوں کو جموں وکشمیر کے حقیقی باشندوں کے طور نہ تسلیم کیاجاتا رہا اور نہ ہی انہیں زمین کی ملکیت اور سرکاری نوکریوں کا مستحق ٹھہرایا جاتارہا۔ ان دونوں معاملات کا بھی اپنا اپنا ایک الگ تھلگ تاریخی پس منظر رہا ہے۔ مغربی پاکستان سے آئے پناہ گزینوںکو ابتدائی طور پر جموں میں پناہ دی گئی اور اُن دنوں کی مرکزی سرکار کی اس درخواست اور یقین دہانی کے ساتھ کہ جونہی تقسیم کے بعد کے حالات معمول پرآئیں گے انہیں جموں وکشمیرسے منتقل کرکے دوسری جگہوں پر اُسی طرح سے بسایا جائے گا جس طرح سے دوسرے پناہ گزینوں کو بسایا گیا ان پناہ گزینوں کو جموں میں پناہ دی گئی ۔ لیکن دوسرے کئی وعدوں کی طرح اس وعدہ کو بھی پائوں کی جیوتی سمجھا گیا۔ اُس وقت کی جموں وکشمیر سرکار اور مرکزی سرکار کے درمیان جو خط وکتابت ہوتی رہی وہ آج بھی کسی نہ کسی لائبریری میں ضرور موجود ہوگی۔
اسی طرح پنجا ب سے لائے والمیکی(صفائی کرمچاری ) عارضی طور سے اس لئے لائے گئے تھے کہ جموں میں صفائی کرمچاریوں نے ہڑتال کردی تھی ، جس ہڑتال کی وجہ سے جموں میںرہائشیوں کیلئے حالات ناقابل برداشت بن چکے تھے لیکن مقامی کرمچاریوں کی ہڑتال ختم ہونے کے بعد ان بیرونی والمیکی کرمچاریوں کو واپس جانے کیلئے نہیں کہاگیا اس طرح یہ لوگ بھی جموں کے ہوکے رہ گئے، حالانکہ دونوں … مغربی پاکستان کے پناہ گزین اور پنجاب کے والمیکی جموں وکشمیر کے پشتنی باشندے نہیں تھے۔
۳۷۰؍ ختم ہوگیا، پناہ گزینوں کو شہریت اور ملازمتوں کے سارے حقوق تفویض کئے گئے، یہ ایک نئی حقیقت ہے لیکن اگر آپ ۳۷۰؍ کو لے کر ۷x۲۴ ورق گردانی کرتے رہیں گے، اس کے خاتمہ کو سیاست کے حوالہ سے نظریہ ضرورت بھی قرار دیتے رہیں گے تو پھر اس دفن شدہ اور گلی سڑی نعش کو قبر سے نکالنے اور باربار اس کا حوالہ دینے کی کیا ضرورت ہے۔ ظاہر ہے آپ اپنی ضرورت اور سیاسی مصلحتوں کے تحت اس کا دامن بار بار پکڑتے رہیں گے تو ردعمل میں اس کی واپسی کا مطالبہ اور تذکرہ بھی باربار سامنے آتا رہے گا۔ کیونکہ ہر عمل کا اپنا ایک ردعمل ہوتا ہے۔ اور وہ لوگ جو دفعہ ۳۷۰؍ کے ماضی کے حوالہ سے حقائق کی علمیت نہیں رکھتے اپنی سیاسی زندگی کی خاطر ان کیلئے لازم ہے کہ وہ تاریخی حقائق کا بھی مطالعہ کرتے رہیں، ورنہ وہ تاریخ اور سیاق وسباق سے ہٹ کر اپنے اپنے بیانیہ کے تعلق سے مذاق ہی بنتے رہیں گے۔