سرینگر/۲۳ دسمبر
کشمیر میر واعظ‘مولوی محمد عمر فاروق نے جموں و کشمیر میں ریزرویشن پالیسی کو معقول بنانے کے مطالبے پر بلائے گئے دھرنے کی حمایت کی ہے۔
میر واعظ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو انصاف اور شفافیت کے ساتھ حل کیا جانا چاہئے۔
میرواعظ نے کہا کہ اگر انتظامیہ انہیں اپنی رہائش گاہ سے باہر نکلنے کی اجازت دیتی ہے تو وہ دھرنے کا حصہ ہوں گے اور جب بھی انہیں وہاں جانے کی اجازت دی جائے گی وہ جامع مسجد میں اس معاملے کو اٹھائیں گے۔
میر واعظ نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) سے بات کرتے ہوئے کہا”ریزرویشن کے مسئلے کو ذمہ داروں کو انصاف اور شفافیت کے ساتھ حل کرنا چاہیے، معاشرے کے تمام طبقوں کے مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے، نہ کہ کسی ایک گروہ کی قیمت پر۔ ریزرویشن کی موجودہ صورت حال جنرل/ اوپن میرٹ زمرے کے مفادات کو نظر انداز کرکے ایسا کرتی ہے۔ ان کے خدشات کو فوری طور پر دور کرنے کی پرزور اپیل“۔
ان کامزید کہنا تھا”اگر حکام اجازت دیتے ہیں تو وہ اس کا حصہ ہوں گے۔ میرا وفد مدد کے لئے وہاں موجود ہوگا“۔ میرواعظ نے کہا کہ جب بھی جانے کی اجازت دی جائے گی جامع مسجد میں بھی اس مسئلے کو اٹھائیں گے۔
سرینگر کے رکن پارلیمنٹ روح اللہ مہدی نے ریزرویشن پالیسی کے خلاف احتجاج کی کال دی تھی۔ ان کی کال کی پی ڈی پی ایم ایل اے وحید پرہ اور طلبہ تنظیموں نے حمایت کی۔
اس دوران جموں و کشمیر اپنی پارٹی کے صدر سید محمد الطاف بخاری کا کہنا ہے کہ ایک رکن پارلیمان کا عوامی مطالبات کے لئے اپنی پارٹی کے صدر کے ساتھ براہ راست رابطہ کرنے بجائے کھلا خط لکھنا اور پارٹی قیادت کے خلاف احتجاج کرنا دکھاوے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔
بخاری نے کہا”ایسی سیاسی چالبازیوں کے دن گذر چکے ہیں لوگ حقیقی کوششوں اور دکھاوے کی کوششوں کے درمیان فرق کرنے کے لئے کافی ذہین ہیں“۔
اپنی پارٹی کے صدر نے ان باتوں کا اظہار پیر کے روز رکن پارلیمان آغا روح اللہ نے ریزرویشن پالیسی میں نظر ثانی کرنے کے مطالبے کو لے کر پیر کو وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی گپکار میں واقع سرکاری رہائش گاہ کے باہر احتجاج میں شامل ہونے کے اعلان کے رد عمل میں کیا۔
بتادیں کہ قبل ازیں آغا روح اللہ نے رواں سال کے ماہ اکتوبر میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو ایک کھلا مکتوب بھیجا تھا جس میں بعض اہم معاملوں اور ان کے حل کو اجا گر کیا گیا تھا۔
بخاری نے اس اعلان کے رد عمل میں پیر کے روز ’ایکس‘پر اپنے ایک پوسٹ میں کہا”یہ لوگوں کی عقل سے مکمل طو پر بے اعتنائی برتنے کو ظاہر کرتا ہے کہ جب ایک رکن پارلیمان عوامی مطالبات کی وکالت کے لیے اپنی پارٹی کے صدر سے براہ راست بات کرنے کے بجائے اسے کھلا خط لکھنے اور اپنی ہی پارٹی قیادت کے خلاف احتجاج کرنے کا انتخاب کرتا ہے “۔
اپنی پارٹی کے صدر نے کہا”ایسی سیاسی چالبازیوں کے دن گذر چکے ہیں لوگ حقیقی کوششوں اور دکھاوے کی کوششوں کے درمیان فرق کرنے کے لئے کافی ذہین ہیں“۔ان کا پوسٹ میں مزید کہنا تھا”لوگوں کی ذہانت کو کم تر سمجھنا، دونوں غیر دانشمندی بھی ہے اور بے عزتی بھی۔“