کبھی کسی زمانے میں جموں و کشمیر ایک مکمل ریاست ہوا کرتی تھی ڈوگرہ سلطنت اپنی اس ریاست کی ہیت اور حجم پر سینہ تان کر فخر کیا کرتے تھے ۔تقسیم سے قبل یہ ریاست رقبہ اور حجم کے اعتبار سے سرحد کے آر پار کئی ریاستوں کے حجم سے بڑی تھی لیکن اس ریاست کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا گیا۔ چین نے اس کے ایک حصے پر قبضہ کر کے اسے ہتھیا لیا ،نہ پاکستان اور نہ ہندوستان چین کے اس ناجائز قبضے کو ختم کرانے میں اب تک کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود کامیاب ہو سکے ہیں۔
جموں و کشمیر کے ایک اور حصے پر پاکستان کا براہ راست قبضہ ہے جبکہ پاکستان کے زیر کنٹرول ایک اور خطہ جو آزاد کشمیر کے طور اپنی شناخت رکھتا ہے کنٹرول لائن کے اُس پار موجود ہے ۔تقریبا ۷۵؍ سال تک کنٹرول لائن کے اِس پاربچا کچھاجموں و کشمیر اپنی شکل و ہیت میں سفر کرتا رہا لیکن اچانک۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کا سورج طلوع ہوئے ابھی چند ہی گھنٹے گزرے تھے کہ اس رہی سہی ریاست کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا، کرگل اورلداخ کو جموں و کشمیر کے جغرافائی نقشے سے کاٹ کر ایک اور لکیر کھینچی گئی اور لداخ کے ان دوضلعوں پر مشتمل ایک مرکزی علاقہ کے قیام کا اعلان کر دیا گیا ۔باقی کشمیر اور جموں پرمشتمل دوخطوں کو علیحدہ یو ٹی قرار دیا گیا یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔
اب اس تصویر کا دوسرا رُخ آہستہ آہستہ بلکہ درپردہ تمام تر معاونتی کرداروں کی جاری کاوشوں اور پوشیدہ ہاتھوں کی پوشیدہ سرپرستی کے ساتھ ایک نئی تحریک چلائی جا رہی ہے۔ اس تحریک کو آواز اور شدت عطا کرنے کے لیے نیشنل کانفرنس کے ساتھ سالہا سال کی وابستگی رکھنے والے دیویندر رانا کو پارٹی چھوڑنے کی تحریک و ترغیب دی گئی اور اس نے جموں نریٹو کا نعرہ بلند کیا ۔اس نعرہ کو کچھ آوازوں کا سہارا حاصل کرنے کے لیے کئی دوسرے مخصوص فکر اور سیاسی سوچ کے حامل افراد اور شکمی تنظیموں کی خدمات بھی حاصل کی جا رہی ہے۔ اور اب چند روز قبل کشمیری پنڈتوں کی ایک خود ساختہ تنظیم بھی اسی نریٹو کے ساتھ نمودار ہوئی جس نے نہ صرف کشمیر وادی کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے اپنے ۳۵؍ سالہ پرانے نعرے کا اعادہ کیا بلکہ اپنی وفاداری اور مشکوک قوم پرستی کے ساتھ ساتھ ملک اور جموں و کشمیر کی جغرافائی وحدت اور سالمیت کے حوالے سے اپنی فکر، اپنے اپروچ اور اپنی وابستگی پر بہت سارے سوالیہ کھڑے کر کے جموں کو جموںو کشمیر کے نقشے سے کاٹ کر جموں پر مشتمل ایک الگ ریاست کی تشکیل کا مطالبہ کیا۔
اپنے اس مطالبے جوہر اعتبار سے شرانگیز، فرقہ پرستی، بدترین علاقہ پرستی اور عقیدہ کے حوالہ سے انتہائی جنونیت سے عبارت ہے کو اور کسی عنوان یا تمہید کی ضرورت نہیں بلکہ یہ تنظیم جموں وکشمیر کی وحدت، علاقائی سالمیت اور آپسی رواداری اور یگانگت کو پارہ پارہ کرنے کے اعتبار سے ٹکڑے ٹکڑے گینگ کی حیثیت رکھتی ہے۔مرکزی سطح پر اسی سے مماثلت فکر اور اپروچ کی حامل کئی طبقاتی تنظیموں اور انفرادی سطح پرا س سوچ اور فکر کے حامل افراد کو ٹکڑے ٹکڑے گینگ کی شناخت حاصل ہے۔ لیکن جموں وکشمیر کے حوالہ سے جموںوکشمیر کی علاقائی سالمیت اور وحدت کو پارہ پارہ کرنے اور ڈوگرہ مہاراجوں کی اس تشکیل ریاست کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور تقسیم درتقسیم کرنے والوں کی پذیرائی کی جارہی ہے، ان کی سرپرستی بھی کی جارہی ہے، ممکن ہے تقسیم کے اس مکروہ منصوبے اور ایجنڈا کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے مالی امداد بھی فراہم کی جارہی ہو، جبکہ سیاسی سطح پر کچھ کی معاونت بھی حاصل ہو۔
کشمیر وادی سے کبھی بھی اور کسی بھی مرحلہ پر ایساکوئی نریٹو سامنے نہیںآیا اور نہ اس قسم کی کوئی نعرہ بازی ہوتی رہی ہے ، البتہ جموں سے وقفے وقفے سے یہ شرانگیزی اور فتنہ پروری اپنے مکروہ چہروں کے ساتھ نمودار ہوتی رہی ہے ۔ کبھی جموںکو جموں وکشمیر سے کاٹ کر کچھ ہماچل کے ساتھ اور کچھ پنجاب کے گرداسپورکے ساتھ ملا کر ایک نئی ریاست کو وجود بخشنے کے منصوبے سامنے آتے رہے ہیں تو کبھی علیحدہ جموںریاست کا نعرہ۔
اس نعرہ کی جموں کے عوام کی طرف سے کیا کچھ حمایت یا پذیرائی حاصل ہے اس بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہاجاسکتا ہے البتہ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ کچھ جموں نشین سیاسی چہرے ضرور ایسے ہیں جو اس شرانگیز نعرہ اور ایجنڈا کو شرمندہ تعبیر بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی دکانوں کا استحصالی وجودبرقراررکھ سکیں کیونکہ جموں وکشمیرکی مشترکہ وحدت، علاقائی سالمیت اور عوام اور عوام کے درمیان آپسی روابط، تعلقات، کاروبار اور آواجاہی ان کے مفادات کیلئے سم قاتل ثابت ہورہی ہے۔
اس حوالہ سے کشمیری پنڈتوں کے نام پر قائم پنن کشمیر جموںوکشمیر کی علاقائی وحدت اور سالمیت کو ختم کرنے کی جو کوشش اور نعرہ بازی اب گذشتہ ۳۵؍ برسوں سے کررہی ہے وہ کشمیری پنڈتوں کی باعزت گھروں کوواپسی، ان کی باوقار باز آبادکاری اور جموںوکشمیر کے سیاسی، معاشرتی ، معاشی اور سب سے بڑھ کر کشمیریت کے تعلق سے انہیں کردار اداکرنے کی راہ میں کاٹنے بچھانے کے راستے پر گامزن ہے۔ کشمیر کی آبادی فی الوقت تقریباً ایک کروڑ کے قریب ہے اور پنن کشمیر ۵؍ لاکھ کے قریب نفوس کیلئے آدھا کشمیر مانگ رہا ہے۔ اس سے ظاہر بھی اور واضح بھی ہوتا ہے کہ یہ تنظیم سرزمین کشمیر سے کوئی لگائو اور وابستگی نہیں رکھتی ہے بلکہ یہ ملک دُشمن قوتوں کی آلہ کار بنتی نظرآرہی ہے۔
کشمیر ایسے کسی بھی مکروہ منصوبے اور ایجنڈا کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گا کیونکہ تقسیم درتقسیم کے ان سارے منصوبوں اور ایجنڈا کے پیچھے مکروہ عزائم پوشیدہ ہیں جن مکروہ عزائم میں سے ایک یہ بھی بادی النظرمیں محسوس کیاجارہاہے کہ کشمیرکو دُنیا کے اس خطے میںایک اور غزہ بنایاجائے۔
کنٹرول لائن کے اُس پار سے گزری کئی دہائیوں سے اب تک کیا کم زخم کشمیر کو نہیںدیئے گئے اور اب کشمیر کی سرزمین سے ہی جڑے کچھ مفادپرست اور ابن الوقت لوگ اور ان کی خودساختہ تنظیمیں کشمیراور اس کی آبادی کو نئے زخموں سے چور چور کرنے کی راہیں تلاش کررہی ہیں، کشمیرکی مسلم آبادی ہی تھی جس نے ۱۹۴۷ء ، ۱۹۶۵ء اور ا۱۹۷ء کے بعد سے اب تک کنڑول لائن کے اُس پار کے کشمیر سے متعلق ایجنڈا کو ناکام بنایا اور سالمیت کا دفاع کرتے کرتے اپنی زندگیوں تک کی پروانہ کی لیکن اس کردار کے باوجود انہیں عفریت کے طور ملکی رائے عامہ کے سامنے پیش کرنے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے ۔ ان سارے زخموں اور کرب کے باوجود کشمیرنے ملکی آئین اور جمہوریت پر اپنے غیر متزلزل اعتقاد اور بھروسہ کا برملا اظہار کیا لیکن ان کے اس اظہار کو بھی کچھ مخصوص ذہنیت کے حامل علیحدگی پسندی کا احیاء کے طور پیش کرکے اپنی فطری شرانگیزی سے باز نہیں آرہے ہیں۔
۔