قاتل کو مسیحاکہیے یا مہاتما، جب تک وہ زندہ ہے اس کی پہنچان قاتل ہی رہیگی۔ قاتل چاہئے ملی ٹنٹ کی شناخت رکھتا ہو، دہشت گرد کی رکھتاہو، جنگجو کی رکھتا ہویا اور کسی لبادے میں رہ کر قاتلانہ راستہ اختیار کرے اس کی حیثیت بھی قاتل ہی کی رہیگی، نام رکھنے یا کسی نام سے اس کو پکارنے سے کوئی فرق نہیں، یہ تمہید ان مخصوص ذہنیت کے حامل لوگوں کے لئے آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے جنہوںنے گگن گیر گاندربل میںدہشت گردانہ حملے میںشہریوں پر قاتلانہ حملے کے تناظرمیںجموںوکشمیر کے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کے مذمتی پیغام کو کچھ اور ہی معنی پہناکر اعتراض کیا ہے کہ عمر نے حملے میں ملوثین کو دہشت گرد نہیں بلکہ ملی ٹنٹ کہا ہے۔ کچھ نے یہ تک بک دیا ہے کہ نیشنل کانفرنس کی اقتدار پرواپسی کے ساتھ ہی کشمیر میں دہشت گردی کی بھی واپسی ہوئی ہے۔
عمر عبداللہ ، اس کے باپ فاروق عبداللہ ،کشمیر نشین کئی دوسرے سیاستدانوں الطاف بخاری، سجاد غنی لون، محبوبہ مفتی، محمد یوسف تاریگامی ، میرواعظ کشمیرمولانا محمدعمر فاروق جبکہ جموںنشین کئی سیاستدانوں اور پارٹیوں نے بھی اس بزدلانہ اور وحشیانہ حملہ کی مذمت کی اور متفقہ طور سے یہ مانگ کی کہ حملے میں ملوثین جو بھی ہیں کو کیفر وکردار تک پہنچایا جانا چاہے اور اس حوالہ سے کسی بھی رئو رعایت سے کا م نہیں لیاجانا چاہئے۔
جہاں تک اوسط کشمیری کا تعلق ہے تو اس حملہ سے سارا کشمیر صدمہ میںہے اور سوال کیاجارہاہے کہ آخر کب تک کشمیرکے نام پر کشمیرکو لہولہاں کیاجاتا رہے گا، زائد از ۷۵؍ سال سے اس راستہ پر چلتے اور کاربند رہتے کیا کچھ حاصل کیاگیا جو ابھی بدستور اسی راستے پر چلتے حاصل کیاجاسکے گا؟ کشمیر امن چاہتا ہے، اپنے لئے ترقی اور کامیابی کاخواہاں ، گذرے برسوں کے دوران کشمیر کو اس کی کم سے کم تین نسلوں سے محروم کرکے ہزاروں قبرستان آباد کئے جاتے رہے ،اس حقیقت کے باوجود کہ اوسط کشمیری اس خونین اور قاتلانہ راستہ کو پسند نہیں کرتا المیہ یہ ہے کہ اس کی اس خواہش کا احترام نہیں کیا جارہاہے بلکہ جبر وقہر، قتل وغارت ،ایسے مذموم اور دلخراش ہتھکنڈے اس پر مسلط کئے جارہے ہیں۔
تازہ ترین دہشت گردی کے نتیجہ میں چند قیمتی جانیں موت کی آغوش میں توچلی گئی لیکن یہ حملہ درحقیقت کشمیر پرحملہ ہے، کشمیر کی ترقی پر حملہ ہے، کشمیر کے سکون اور استحکام پر حملہ ہے اور بحیثیت مجموعی کشمیریوں پر حملہ ہے۔ یہ حملہ کیوں ہوا، کون اس حملے میں ملوث ہے یا کس کی ہدایت پر ہوا ہے ان سوالوں کے کئی پہلو ہیں۔
بے شک سرکردہ شخصیات نے اس حملہ کو بزدلانہ دہشت گردانہ، وحشیانہ ، انسانیت سوز وغیرہ قرار دے کر مذمت کی ہے اور کئی مطالبات بھی کئے ہیں لیکن پہلا سوال یہ ہونا چاہئے تھا کہ کیا اتنے بڑے پروجیکٹ جس کے ساتھ بہت سارے لوگ مختلف حیثیتوں سے وابستہ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں کو کس حد تک سکیورٹی حصار حاصل ہے اور اگر حاصل ہے تو حملے کے وقت وہ سکیورٹی کہاں تھی ؟ حملہ آور کیسے کچن تک پہنچ گئے اور اندھا دھند گولیاں برسا کر کئی انسانی زندگیوں کو چھین کر بڑے آرام اور سکون سے واپس بھی چلے گئے۔ ردعمل میں دعویٰ کیا جاتا رہا کہ سکیورٹی میںمزید اضافہ کردیاگیا ہے، فورسز کو مزید چوکنا کردیاگیا ہے، تلاشیوں اور ناکوں کا نہ ختم ہونے والا نیا کریک ڈائون ہاتھ میں لیاگیاہے ، اس نوعیت کی ہلاکت خیز ی کے بعد ایسے ہی بول سنے جاتے رہے ہیں او رایسے ہی اقدامات کی نوید سنائی جاتی رہی ہے۔
یہ خبر حملے کے کچھ دیر بعد منظرعام پر آئی کہ کسی نامی دہشت گرد تنظیم نے اس قتل وغارت کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ یہ اس واقعہ کے تعلق سے ایک پہلو ہے۔ لیکن ایسے معاملات کے تہہ اندر تہہ پہلو ہوتے ہیں اور کشمیر کا اوسط شہری ان تہہ اندر تہہ پہلوئوں کی کچھ نہ کچھ سدھ بدھ رکھتا ہے۔
یہ ہلاکت خیز حملہ عین اُس وقت ہوا جب جموںوکشمیر میںعمر کی قیادت میں عوام کی منتخبہ حکومت کی تشکیل کو ابھی محض چند ہی گھنٹے ہوگذرے تھے ۔ حکومت کی حلف برداری سے قبل ہی کچھ عناصر کی جانب سے انتباہ بھی سامنے آتے رہے او ردبی دبی زبان میں دھمکیوں کو بھی زبان دی جاتی رہی۔ اسی نوعیت کے ردعمل کو بین السطور بھانتے ہوئے کشمیر میں یہ خدشہ اُبھرتا رہا کہ عمر کیلئے یہ حکومت پھولوں کی نہیں کانٹوں کی سیج ہوگی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ماضی کی طرح اس حکومت کو بھی چین سے عوام کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے اورجموں وکشمیرکی مجموعی اور مساوی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے کی قدم قدم پر کوشش کی جاسکتی ہے۔
اس فکر کے متعصب عنصر جموں وکشمیر کے اندر بھی موجودہیں اور جموں وکشمیر سے باہر بھی موجود ہیں۔ ان میںوہ کچھ مخصوص فکر کے عناصر بھی خاص طور سے قابل ذکر ہیں جو کشمیرکے عوام کے اس منڈیٹ ، جو آئین کی بالادستی اور جمہوریت پر غیر متزلزل یقین کا برملا اظہار بھی ہے، کو مرکزی سرکار کے تئیں احسان فراموشی کے طور پہلے ہی لمحہ سے پیش کرنے کی شروعات ہوئی۔ کیونکہ یہ کچھ عنصر یہ سمجھ رہے ہیں کہ جموں وکشمیر میںگذرے دس سال کے دوران جو ترقیاتی کام ہوئے وہ اصل میں عوام پر حکومت کا احسان ہے لیکن کشمیر نے این سی کے حق میں ووٹ دے کر احسان فراموشی کی؟ کس قدر غلیظ اورآمرانہ سوچ اور اپروچ ہے۔
بہرحال واقعہ اور اب تک گذرے برسوں کے دوران اسی نوعیت کے ہلاکت خیز پیش آمدہ واقعات کی مذمت کرنا، ان جیسے حملوں کو بزدلانہ ، شر پسندانہ اور دہشت گردانہ قرار دینا ایک روایت سی بن چکی ہے۔ اگر کشمیر نشین اور جموںنشین سیاسی قیادتوں کے دعویدار، دونوں خطوں کی سول سوسائٹی دیانتداری سے سمجھ رہی ہے کہ ایسے ہلاکت خیز واقعات اب قوت برداشت سے باہر ہیں اور واقعی محسوس کررہے ہیں کہ آخر کب تک تو لازم ہے کہ وہ ٹنل کے آر پار متحد ہوکر ایک آواز میںعوام کو ساتھ لے کر دُنیا پر واضح کرے کہ وہ اپناکردار اداکرے اور جو بھی طاقوتیں ، عناصر ،سٹیٹ یا نام سٹیٹ ایکٹر یا ادارے جموںکشمیرمیں دہشت گردانہ سرگرمیوں میںملوث ہیں،لانچنگ سہولیات اور فنڈز میسر رکھ رہے ہیں ان کو بے نقاب کیاجائے اور واضح پیغام دیاجانا چاہئے کہ وہ کس اخلاقی اور سیاسی وکٹ پر کھڑے ہوکر کشمیر کی سرزمین کو لہورنگ بنانے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ کشمیر ایسے کسی بھی راستے کو نہ قبول کررہا ہے اور نہ پسند کررہا ہے کیونکہ یہ ان کی منزل نہیں اور نہ ہی چاہت ہے۔