بالآخر بلی تھیلے سے باہر آہی گئی اور کانگریس اپنے اصلی مکھوٹے کے ساتھ سامنے آگئی اگر چہ اس نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ نیشنل کانفرنس نے وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ کی قیادت میں وزارتی کونسل میں پارٹی کو دووزارتی منصب الاٹ کئے جانے کی مانگ مسترد کردی ہے لیکن یہ مانگ محض ایک ڈھال کے طور پیش کی گئی ، اس فہم کے ساتھ کہ محض ۶؍ ارکان اسمبلی میں سے دو کیلئے وزارتی عہدوں کی مانگ کسی بھی اعتبار سے مطابقت نہیں رکھتی جبکہ وزارتی کونسل سے دوری کے فیصلے کے پیچھے اصل وجہ یہ ہے کہ کانگریس کچھ ریاستوں میں اسمبلی الیکشن کے پیش نظر اپنی سیاسی حریف بی جے پی کی تنقید اور ممکنہ نریٹو کے وار سے محفوظ رہنا چاہتی ہے۔
جموںوکشمیر میںنیشنل کانفرنس کا دفعہ ۳۷۰؍ اور ۳۵؍ اے کے تعلق سے موقف واضح ہے، اس موقف کی نشاندہی پارٹی کے چنائو منشور میں بھی کی گئی ہے جبکہ اس کے برعکس کانگریس نے اپنے چنائو منشور میں ان کالعدم شدہ آئینی ضمانتوں کا کوئی تذکرہ نہیں کیا، اگر چہ بی جے پی باربار سوال کرتی رہی کہ کانگریس اس بارے میں اپنا موقف واضح کرے لیکن کانگریس نے سختی کے ساتھ خاموشی کا راستہ اختیار کیا۔
ظاہر ہے اس مخصوص تناظرمیں آنے والے ایام میں اگر نیشنل کانفرنس ان دفعات کی بحالی اور ریاستی درجہ کی واپسی کے اپنے موقف کے مطابق مطالبے کا اعادہ کسی قرار داد کی صورت میں اسمبلی کے کسی سیشن میںپیش کرے تو الائنس پارٹنر کی حیثیت سے اس کیلئے لازم ہے کہ وہ اس کی حمایت میں ووٹ کاسٹ کرے۔ دوسری صورت میں کانگریس ووٹنگ کے وقت غیر حاضر رہی لیکن غیر حاضر رہنے کی صورت میں اس کے الائنس پارٹنر ہونے کادعویٰ ختم ہوجائے گا جس فیصلہ کا لازمی طور سے ردعمل ملکی سطح پر قائم انڈیا بلاک کے نام سے الائنس پر پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ نیشنل کانفرنس کی قیادت کیلئے اس کا دفاع کرنا قدرے ناممکن بنا سکتا ہے کہ وہ لوگوں کو اس بات پر قائل کرسکے کہ جموں وکشمیر کے سیاسی اور زمینی حالات کچھ اور ہیں اور ملکی سطح کی مجبوریاں کچھ اور ہیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے درمیان دوستانہ اشتراک کئی دہائیوں پر محیط ہے، اس دوستی کی بُنیاد مرحوم شیخ محمدعبداللہ اور آنجہانی نہرو نے رکھی، یہ دوستی بہت سارے نشیب وفراز سے بھی ہوگذری، عہد شکنیوں کا بھی سامنا ہوا ، باالخصوص دفعہ ۳۷۰؍ اور ۳۵؍ اے کے ساتھ ساتھ دوسرے کئی ایک آئینی تحفظات کے تعلق سے بھی کانگریس نے اپنے دور اقتدار کے دوران ہاتھ کھینچ کر اور قدم پیچھے ہٹاکر ان عہد شکنیوں کے کئی ابواب رقم کئے، لیکن نیشنل کانفرنس نے یہ جانتے ہوئے کہ اس پارٹی نے کشمیرکے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا اس کی طرف دوستی کا ہاتھ تھاما اور تھامتی ہی رہی۔
دفعہ۳۷۰؍ کے تعلق سے خود آنجہانی نہرو کے اعترافی بیانات ریکارڈ پر موجود ہے جبکہ آج کی تاریخ میں اس کے خاتمہ کا بوجھ حکمران بی جے پی پر ڈ ال رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دفعہ کو ختم کرنے کی بُنیاد کانگریس کے دور اقتدار میں رکھی گئی اور بقول نہرو کے یہ گھستے گھستے محض کاغذ کاٹکڑا رہ جائے گی اور جب اس دفعہ کو بی جے پی نے ختم کیا تو اس کی حیثیت واقعی محض کاغذ کے ایک ناکارہ پرزے سے زیادہ نہیں تھی۔ البتہ اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں کہ اس نوعیت کی آئینی تحفظات کے ساتھ کشمیر کی جذباتی وابستگی رہی ہے اور فی الوقت بھی ہے۔
موٹے طور سے کہا جاسکتا ہے کہ نیشنل کانفرنس کی کانگریس کے ساتھ یہ دوستی یکطرفہ ہے اور اس یکطرفی کاثبوت حالیہ الیکشن مہم کے دوران بھی سامنے آتا رہا ہے۔ کوئی انڈیا بلاک کا لیڈر باالخصوص کانگریس کی لیڈر شپ میں سے کسی نے جموں وکشمیرآکر نیشنل کانفرنس کے کسی ایک انتخابی جلسے میںشرکت نہیں کی۔ اگر چہ راہل گاندھی نے بانہال اور سوپور کے انتخابی جلسوں سے خطاب کیا لیکن ان دونوں حلقوں سے کانگریس کے اُمیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
کشمیر کی ضرب المثل ہے کہ ’سیخ بھی بچائو اور کباب بھی نہ جل پائے‘ کی مصداق کانگریس کشمیرکے حوالہ سے اسی فارمولہ کو اپنا رہی ہے۔ لیکن گہرائی میں جاکر تجزیہ کیا جائے تو کانگریس کی یہی وہ حکمت عملیاں، راستے اور طریقے کاررہے ہیں جن کے حوالہ سے کشمیرمیںلوگ اس پارٹی کی رگ رگ سے واقف ہیں اور یہ بھی اہم وجہ ہے کہ ۷۵؍ سال سے زائد عرصہ بیت چکا ہے کہ کانگریس ابھی تک کشمیرمیں اپنے پائوں نہیں جماسکی ہے اور وسیع بُنیادوں پر اس پارٹی کو کشمیری عوام کا اعتماد حاصل ہوسکا ہے۔ بے شک چند ایک انتخابی حلقوں سے اس کے اُمیدوار کامیاب رہے ہیں لیکن اُن کی کامیابی پارٹی کے اثر ورسوخ کی نہیں بلکہ اُن اُمیدواروں کی اپنے ذاتی سیاسی قداور مقامی سطح پر ذاتی اثر ورسوخ کی مرہون منت ہے۔
فطرتی ردعمل کے حوالہ سے یہ سوال کیاجاسکتا ہے کہ جب لوگوں کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ کانگریس نے کشمیر کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا پھر بھی ا س کے ساتھ دوستی نبھانے والی نیشنل کانفرنس کا ساتھ نہیں چھوڑ رہے ہیں تواس کا سادہ لفظوں میں جواب یہی ہے کہ کشمیر میں نیشنل کانفرنس کا مضبوط متبادل نہیں ہے۔ کشمیرنے متبادل اور تبدیلی کے طور مفتی محمدسعید کی سیاسی لن ترانیوں کے باوجود اپنا منڈیٹ تقسیم کرکے منڈیٹ کا ایک حصہ مفتی کی جھولی میںڈالدیا، لیکن مفتی نے اُس منڈیٹ کا اپنے اقتدار کے حوالہ سے سودا کیا اور سائوتھ اور نارتھ بلاک کا نظریہ پیش کرکے اسے اپنا وژن اور مشن کالبادہ پہنا دیا جو محض چند برسوں کے دوران ہی ناکام بھی ہوا اور زمین بوس بھی ہوا۔ سو منڈیٹ واپس نیشنل کانفرنس کے پاس چلا گیا۔
نیشنل کانفرنس کے اس منڈیٹ کے کئی پیچیدہ اور حساس نوعیت کے پہلو اور چیلنج ہیں جن سے پارٹی اور اب اس کی حکومت کا ان چیلنجوں سے عہدہ برآں ہونا مشکل ترین مرحلہ ہے۔ یہ مرحلہ این سی کیلئے موت وحیات کی حیثیت بھی رکھتا ہے ۔ نیشنل کانفرنس کے سیاسی حریفوں کو ان حالات اور منظرنامہ کی بھر پور علمیت ہے اور وہ جانتے ہیں کہ کب اور کس طریقے سے ان میں سے کسی ایک ہتھکنڈے یا حربہ کو بروئے کار لاکر این سی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرکے اس کی راہیں مسدود کی جاسکتی ہیں۔
لیکن ان سے نمٹنے کیلئے نیشنل کانفرنس کے پاس سیاست تو ہے لیکن وسائل نہیں۔ البتہ اس پارٹی کے پاس عوام کا مکمل منڈیٹ ہے اور لوگ بھی اس کی پشت پر ہیں۔ یہ فیکٹر غالباًاس کے سیاسی حریفوں کو کچھ غلط کرنے یا کسی مہم جوئی کاراستہ اختیار کرنے سے پہلے سو بار غوروفکر کرنے پر مجبور کرسکتا ہے لہٰذا پھونک پھونک کر قدم رکھنے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔