منگل, مئی 13, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

کشمیر اورجموں خطوں کی سیاسی تقسیم

نعرہ کس نے دیا اور ذمہ دار کون ہے؟

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-10-12
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

کشمیرمیں الیکشن نتائج کے حوالہ سے جب بات کی جاتی ہے اور ووٹنگ پیٹرن کو زیر غور لاکر اس کا تجزیہ کرتے ہیں تو کچھ ایسے پہلو اور عوامل اُبھر کرسامنے آجاتے ہیں جنہیں آسانی سے نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ہے ۔ ان پہلوئوں میں سے ایک یہ ہے کہ کشمیر اور جموں نے مذہبی اور علاقائی نظریات کے مطیع ہوکر ووٹ دے کر اپنے اپنے نریٹو کو واضح کردیا ہے۔ علاقائی سطح پر برآمد ان نتائج کے تناظرمیں اب بعض سیاسی حلقے اسے دو خطوں کے درمیان سیاسی تقسیم قرار تو دے رہے ہیں لیکن ساتھ ہی دو خطوں کے درمیان اس سیاسی تقسیم کو تشکیل پانے جارہی حکومت کیلئے ایک بہت بڑا انتظامی چیلنج بھی سمجھتے ہیں۔
بے شک ایسا ہی ہے اور زمینی سطح پر حقیقت بھی یہی ہے۔ اس کا اعتراف ڈاکٹر کرن سنگھ اور ڈاکٹر فاروق عبداللہ دونوں کو ہے جبکہ دونوں نے اس تقیسم پر اپنی فکر مندی اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یہ ایک پہلو ہے جس کو انتظامی اور سیاسی سطح پر کسی حد تک قابو پانے کی ذمہ داری ٹنل کے آر پار تمام سیاسی سٹیک ہولڈروںکی ہے لیکن بُنیادی سوال یہ ہے کہ خطوں کے درمیان اس تقسیم کا ذمہ دار کون ہے اورکس نے مذہب کو بُنیا دبناکر اس علاقائی تقسیم کو یقینی بنایا؟
جموں وکشمیر ہر ایک اعتبار اور ہر ایک پہلو سے حد سے زیادہ حساس ہے، اگر چہ دونوں خطوں کے درمیان نظریاتی تقسیم پہلے سے موجود اور چلا آرہا ہے لیکن اس نظریاتی تقسیم کو دونوں خطوں کی روادار قوتیں نظراندازکرکے کسی اہمیت کا حامل نہیں سمجھتی بلکہ آپسی رواداری، یکجہتی اور ایک دوسرے پر زندگی کے مختلف شعبوں کے تعلق سے انحصار کو مضبوط ومستحکم بنانے کو ترجیح دی جاتی رہی ہے۔ لیکن کچھ عناصر حالیہ چند برسوں کے دوران اُبھر کر سامنے آئے اور شدت پسندی کا راستہ اختیا رکرکے جموں میں منافرت کی ایک نئی بُنیاد ڈالی گئی۔ جس بُنیاد کو ڈالنے میں بیرون جموںوکشمیر سے وابستہ ایک خاتون نے کچھ مقامی وکلا کے ساتھ مل کر اہم کرداراداکیا ۔
اس نظریاتی اور سیاسی تقسیم کی دوسری اہم وجہ وہ نعرہ ہے جس کو چنائو منشور کی صورت میں جموںمیں یہ کہکر بلند کیاگیا کہ اب کی بار جموں سرکار اور اب کی بار (جموں سے ) ہندو وزیراعلیٰ۔ کشمیر میں کسی سیاسی پارٹی نے کشمیرکے حوالہ سے اس نوعیت کا گھٹیا اور علاقہ پرستی پر مبنی نعرہ نہیں دیا۔ البتہ جموں سے بار بار دہرائے جاتے رہے اس نعرہ کا کشمیر میں ایک خاموش ردعمل سامنے آیا۔ لیکن کشمیر کے اس خاموش ردعمل کو ملک کے وسیع تر تناظرمیں ایک پیغام سمجھنے کی کوشش کی بجائے کچھ گھٹیا اور علاقہ پرست ذہنیت کے حامل سیاستدان اور مخصوص فکر اور ایجنڈا کی خصلت رکھنے والی قومی سطح کی کچھ ایک ٹیلی ویژن چینلیں اب ایک اور روپ میں جلوہ گر ہیں اور کشمیر کے اس منڈیٹ کو جہادی، اسلامی اور احسان فراموشی کے طور پیش کرکے ایک بار پھر کشمیرکو ملکی رائے عامہ کے سامنے بطور عفریت کے پیش کررہے ہیں۔
احسان فراموشی کے تعلق سے یہ دلیل دی جارہی ہے کہ گذرے برسوں کے دوران حکومت نے بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام کئے، سڑکوں کاوسیع جال پھیلایاگیا، نئے میڈیکل کالجوں کا قیام عمل میں لایاگیا، پتھرائو پر قابو پاکر امن قائم کیاگیا، سیاحوں کی کشمیرآمد حجم میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن اس کے باوجود کشمیرنے حکمران جماعت کے حق میں ووٹ نہیں دیا جس کو یہ مخصوص فکر کی حامل ٹیلی ویژن چینلوں کے مالکان، ان کے تنخواہ دار اینکر اور کچھ مدعو خود ساختہ ماہرین کشمیر یوں کی احسان فراموشی کے طور پیش کررہے ہیں۔ کشمیر میں کوئی ترقیاتی منصوبہ یا نئے میڈیکل کالجوں کا قیام کشمیر یا جموں پر کوئی احسان نہیں بلکہ ملک کے شہری ہونے کے ناطے یہ ان کا حق ہے۔یہ اندھے اور ادھ پڑھ اینکر اور خودساختہ ماہرین اس حقیقت کو زیت بحث نہیں لارہے ہیں کہ حکمرا ن جماعت نے کشمیرکی ۴۷؍اسمبلی حلقوں میں اپنے کسی اُمیدوار کو نہیں اُتارا البتہ جن چند اُمیدواروں کو اُتارا اُنہوںنے چند سو سے لے کر تین ہزار کے درمیان ہی ووٹ حاصل کئے۔
اس مخصوص تناظرمیں کیا کشمیر کا ووٹر اپنا ووٹ ہوا میں کاسٹ کرتا؟ جبکہ پارٹی کا دعویٰ ہے کہ کشمیرمیں اس کے حامیوں (ممبران) کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ چکی ہے ۔بہرحال جو کچھ بھی اب نتائج کے حوالہ سے سامنے آچکا ہے اس کے مضمرات آنے والے دنوں،ہفتوں میں ظاہر تو ہوکر رہینگے لیکن بلاشبہ ان نتائج کے حوالہ سے جو سنگین نوعیت کے چیلنج سامنے ہیں ان سے نمٹنے کا کیا طریقہ کار اور روڈمیپ وضع کیا جائے گا اس پر توجہ مرکوز رہیگی۔ البتہ جس چنائو منشور کو عوام کے سامنے پیش کرکے نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے رائے دہندگان کو اپنے حق میں کیا ہے ان چنائو منشوروں میںجووعدے کئے گئے ہیں ان کی تکمیل کی سمت میں اقدامات حکومت کی ترجیح ہونی چاہئے ۔
ریاستی درجہ کی بحالی بے شک اولین ترجیحات کا حامل ہے اور ساتھ ہی روایتی دربار مو کی بحالی بھی، لیکن ان سے کہیں توجہ طلب معاملات ہیں جن کو ترجیحی طور سے ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں روزگار کی فراہمی، زمین اور ملازمتوں کا تحفظ، ڈاکٹر کرن سنگھ کے بقول اترا کھنڈ اور ہماچل پردیش کے طرز پر پُشتنی تحفظات کو یقینی بنانے کی سمت میں اقدامات، دونوں خطوں کی مخصوص ثقافتی ، لسانی اور تہذیبی شناخت کا تحفظ اور آبیاری ایسے اشوز اولین ترجیحات ہونی چاہئے۔
دہلی اور کشمیر کے درمیان بداعتمادی ، دوری ، بدظنی اور بے اعتباری کو شدت عطاکرنے میں ماضی قریب میں خودساختہ قومی میڈیا کا اہم کرداررہا ہے البتہ حالیہ برسوں کے دوران کحھ مخصوص فکر کی حامل ٹیلی ویژن چینلوں نے اس بے اعتباری کو ایک نیار وپ دے کر کشمیر کے خلاف جو مذموم پروپیگنڈہ مہم شروع کررکھی ہے اگر اُس پر روک نہیں لگائی جاسکی تو کشمیر سے ردعمل ظاہر ہوتارہے گا۔ کشمیراور دہلی کے درمیان اس بداعتمادی، بے اعتباری اوربدظنی کی بُنیاد ماضی میں کانگریس کے دور عہد میں رکھی گئی تھی جو وقت گذرتے مختلف روپ دھارن کرکے شدت اختیار کرتی رہی۔ یہ کب تک چلے گا، ان دوریوں اور انہیں ہوا دینے والے مفاد پرست عنصر کے پر کاٹنے کی ضرورت ہے تاکہ جموںوکشمیر کا مستقبل بھی محفوظ رہے اور دونوں خطوں کے درمیان تقسیم اور نفاق کی جس سیاست کاراستہ اختیار کیاجارہاہے وہ بھی ختم ہوسکے۔ بصورت دیگر یہ نفاق اور تقسیم سرحد پار کے عنصر کیلئے بطور آکسیجن کا باعث بنتارہے گا ۔ اس پہلو پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یہ بات بھی قابل غور اور قابل توجہ ہے کہ کشمیر اور جموں خطوں کی یہ سیاسی تقسیم سابق والی ریاست ڈاکٹر کرن سنگھ جو جموںوکشمیر کے سینئر ترین اور بزرگ ترین سیاستدان ہیں کیلئے کیوں فکر مندی کا باعث بنی ہوئی ہے اور اپنی اس تشویش اور فکر مندی کا اظہار اس اُمید اور توقع کے ساتھ کررہے ہیں کہ اب’’میرے آبائو اجداد کی تشکیل خوبصورت ریاست ہم آہنگی اور ہمہ گیر ترقی کے نئے دورمیں آگے بڑھے گی‘‘۔ ڈاکٹر موصوف کا یہ پیغام صرف جموںکیلئے ہی نہیں بلکہ کشمیرکیلئے بھی ہے اور خاص کر ان عنصروں کیلئے بھی واضح ہے جو جموں اور کشمیرکی ایک اور تقسیم کے مذموم منصوبے کی آئے روز اپنا تحریر کردہ وکالت نامہ ہاتھ میں لے کر دکانیں سجاتے رہتے ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کشمیر سے کبھی بھی اور کسی بھی مرحلہ پر ریاست کی تقسیم کیلئے آوازیں بلندنہیں ہوئی البتہ جب بھی کوئی آواز سنی گئی وہ جموں سے ہی بلند کی جاتی رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

عمر جلد فرسٹریٹ ہو جائیں گے !

Next Post

روٹ کی ڈبل سینچری نے انہیں عظیم کھلاڑیوں کی فہرست میں لاکھڑا کیا

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
جوروٹ انگلینڈ کی ٹیسٹ کپتانی جاری رکھنا چاہتے ہیں

روٹ کی ڈبل سینچری نے انہیں عظیم کھلاڑیوں کی فہرست میں لاکھڑا کیا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.