الیکشن کے نتائج بے شک نیشنل کانفرنس کے حق میں ہیں لیکن یہ نتائج پارٹی کے کسی کرشماتی، معجزاتی یا کسی اور فخریہ کارنامہ اور کارکردگی کی مرہون منت نہیں بلکہ یہ نتائج ان معاملات جن کا وار، عذاب اور کریہہ چہرہ عوام نے دیکھا، سہنا پڑا اور سہتے سہتے اور بھی بہت کچھ کھونا پڑا سے لگے زخموں اور محسوس کی جارہی مسلسل ٹیس کا اجتماعی ردعمل ہے۔
گذرے شمارے میں شائع اداریہ بعنوان ’انجینئر اور میر صاحب، یہ سبوتاژ کیوں‘ میں اور باتوں کے علاوہ واضح کیاگیا کہ اس جیت اور ہار کے اتنے پہلو ہیں جو اپنے آپ میں حساس بھی ہیں اور پیچیدہ بھی ہیں۔ جن کا اب مستقبل قریب میں تشکیل پانے جارہی حکومت کو سامنا کرنا پڑے گا اور عوامی خواہشات اور احساسات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان سے عہدہ برآں ہونے کا راستہ بھی اختیار کرنا پڑے گا۔
اس جیت پر وزیراعظم نریندرمودی نے نیشنل کانفرنس کو مبارکباد دی ہے جبکہ جموں خطے میں اپنی پارٹی کی کارکردگی پر بھی فخر کا اظہار کرکے رائے دہندگان کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ وزیراعظم کا یہ تہنیتی پیغام ان کے عہدے اور رتبے کے تقاضوں کے عین مطا بق بھی ہے اور توقع بھی ایسی ہی ہوتی ہے۔ عمرعبداللہ جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ نئی حکومت کے سربراہ ہوں گے نے وزیراعظم کے مبارکبادی کے پیغام کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ ’انہیں اُمید ہے کہ مرکز جموںوکشمیر کے لوگوں کے منڈیٹ کا احترام کرے گااور جموں وکشمیر کی حکومت کے ساتھ مل کر یہاں کے مسائل کے حل کیلئے کام کرے گا‘‘۔
تہنیتی پیغامات اور جوابی پیغامات روایت اور رسم ہے، معاملات کے تئیں حقیقی طرزعمل کچھ اور ہے ۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد نے ریاستی درجہ کی بحالی کو نہ صرف اپنے بیانات بلکہ چنائو منشوروں میںاولین ترجیح دی ہے ۔ اس ضمن میں ان کا یہ بھی موقف رہا ہے کہ چونکہ خود وزیراعظم نریندرمودی اور وزیرداخلہ امت شاہ پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر ریاستی درجہ کی بحالی کے حوالہ سے عہد بند رہے ہیں لہٰذا وہ اپنی یقین دہانیوں کا ایفا کریں گے۔ یہ بات قابل غور اور قابل توجہ ہے کہ ریاستی درجہ کی بحالی کی سمت میں اب تک نہ کوئی شرط رکھی جاتی رہی ہے اور نہ ہی اگر مگر البتہ لفظ ’مناسب وقت‘ کا اظہار سامنے آتارہا ہے۔
لیکن اب ایک واضح پیغام نیشنل کانفرنس ، کانگریس اور جموں وکشمیرکے رائے دہندگان کو دوٹوک اور واضح الفاظ میں دیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ ریاستی درجہ کی بحالی کا وعدہ ضرور ہے لیکن جموںوکشمیر نے گذرے ۵،۱۰؍سال کے دوران ایک لمبا سفر طے کیا ہے، اس نے دہشت گردی کی شناخت سے دسبرداری دی ہے، یہ پرامن ہے یہاں تک کہ جماعت نے بھی الیکٹورل پراسیس میں حصہ لیا جو ایک بہت بڑی پیش رفت ہے لیکن وہ جو اقتدارمیں آرہے ہیں کیلئے لازم ہے کہ وہ دہلی (مرکز ) کویہ یقین دلائیں کہ وہ ان رجحانات کو خطے میں واپس نہیں لائیں گے تو اُس صورت میں ریاستی درجہ کی بحالی ممکن ہیــ۔
یہ واضح پیغام اب رام مادھو کی وساطت سے جموںوکشمیر کودیاگیا ہے۔ رام مادھو کا یہ پیغام دوٹوک ہی نہیں ہے بلکہ نیشنل کانفرنس اور جموں وکشمیرکے عوام کیلئے ایک انتباہ بھی ہے ۔ عمرعبداللہ نے مرکز سے یہ اُمید ظاہر کی ہے کہ وہ عوام کا منڈیٹ کا احترام کرے گا اور درپیش مسائل کا مل جل کر حل تلاش کیاجائے گاجبکہ اس مقصد کیلئے وہ اس بات کا بھی اظہار کرچکے ہیں کہ حکومت کی تشکیل کے فوراً بعد وہ دہلی جاکر مرکزی قیادت سے ملاقات کریں گے۔
الیکشن عمل کے دوران یہ تاثر عوام کے ایک بڑے حلقے میں پایا جارہا تھا کہ اگر منڈیٹ مکمل صورت میں بی جے پی کے حق میں چلا جاتا ہے اور بی جے پی اگلی حکومت تشکیل دیتی ہے تو پہلے جوابی ردعمل کے طور ریاستی درجہ کی بحالی کا فیصلہ سامنے آجائے گا اور اگر بی جے پی کے بغیر کوئی اورحکومت تشکیل پاتی ہے تو اُس صورت میں ریاستی درجہ کی بحالی اگر ناممکن نہیں لیکن التوا کی بھینٹ چڑھ سکتی ہے ۔ ایسا ہی ہوا۔ پہلا پیغام رام مادھو کے بیان کی صورت میں بطور caveatکے سامنے لایاگیا ۔ اس طرح یہ فرض کیاجاسکتا ہے کہ جموںوکشمیر کے حوالہ سے عوامی منڈیٹ کا احترام کرنے کی بجائے اسے لفظوں کے ہیر پھیر کے سہارے اور مشروط بنا کر تقریباً مسترد کردیاگیا ہے۔
رام مادھو نے الیکشن پر اسیس میں جماعت اسلامی کی شرکت کی سراہنا کی ہے اور اسے ایک بڑی پیشرفت قراردیا ہے لیکن کشمیر نے بحیثیت مجموعی جماعت کے حامی سبھی اُمیدواروں کو نہ صرف مسترد کیا ہے بلکہ یہ پیغام بھی واضح طور سے دیا ہے کہ جماعت نے ۳۵؍ سال کے دوران جو راستہ اختیار کیا اور جس کے نتیجہ میں اس پر خود مرکزی سرکاری نے پابندی عائد کرکے اس کے حامیوں کی جائیدادیں تک ضبط کرلی ہیں کہ وہ اُس دور فساد اور تخریب اور ہلاکت خیز ی کے روادار نہیں اور نہ ہی اس کا احیاء کسی بھی حوالہ سے چاہتے ہیں۔ لیکن جماعت کے اُمیدواروں کو عوام کے ہاتھوں درگت کے پہلو کو نہ زبان دی جارہی ہے اور نہ ہی اس کیلئے کشمیر کے عوام کے احساسات اور جذبات اور سب سے بڑھ کر ان کے اس عمل کی سراہنا کی جارہی ہے اور نہ اعتراف کیوں؟
مرکز کے ساتھ جموں وکشمیرکی حکومت کی طرف سے تعاون، اشتراک اور مل کر مسائل کا حل تلاش کرنے کی پالیسی عمرعبداللہ کی نہیں اور نہ فاروق عبداللہ کی وضع کردہ ہے بلکہ اس پالیسی کی بُنیاد مرحوم شیخ محمدعبداللہ نے رکھی تھی کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ یہ فیڈرل ازم کا ایک لازمی جز ہے اور اس اشتراک اور تعاون کے بغیر ریاستی عوام کے روزمرہ کے مسائل بشمول ترقیاتی عمل میں پیش رفت ممکن نہیں۔
دفعہ ۳۷۰؍ کے بارے میں اپنے طور سے نیشنل کانفرنس نے اپنی پوزیشن واضح کررکھی ہے اور یہ بھی عوام پر واضح کررکھا ہے کہ اس کی بحالی میں چاہئے سو سال بھی لگ جائیں تو جدوجہد جاری رہیگی لیکن انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد انٹرویوز میں عمرعبداللہ نے اس مخصوص اشو کے بارے میں یوٹرن لیتے ہوئے کہا ہے کہ فی الحال اس پر زور نہیں دیا جائے گا۔ عمر کے اس واضح یوٹرن کو حاشیہ پر رکھ کر کوئی دوسرا ہی نریٹو پیش کرنے کا کوئی اخلاقی یا سیاسی جواز نہیں۔ رام مادھو نے اپنے انٹرویو میں اس اشو پر بھی سوالیہ کھڑے کئے ہیں کہ دہشت گردوں کی جیل سے رہائی اور دفعہ ۳۷۰ کی بحالی کے موقف کے ساتھ اسمبلی میں جاکر ریاستی درجہ کی بحالی … یہ وسیع تر قومی مفادات کے تناظرمیں مسئلہ بن جاتا ہے…
یہ چند پہلو ہیں جن کے تعلق سے صورتحال اور معاملات اب نتائج آتے ہی سامنے آناشروع ہوگئے ہیں۔ کشمیرنے اپنی رائے کا دوٹوک اور فیصلہ کن انداز میں اظہار کیا ہے جس اظہار کو کئی ایک حساس نوعیت کے اشوز کے تناظرمیں سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس میں اس پہلو کی بہت بڑی اہمیت ہے کہ جہاں کشمیر تخریب اور فساد کو بہت پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ رہا ہے وہیں دہلی کیلئے بھی لازم ہے کہ وہ عوام کے احساسات جذبات اور خواہشات کا احترام کرے۔ انہوںنے بیلٹ کا راستہ اختیار کرکے آئین اور جمہوری عمل پر اپنے یقین محکم کا والہانہ اظہار کیا ہے۔ لیکن اگر مخصوص فکر اور بدخصلت الیکٹرانک اور جانبدار سوشل میڈیا بدستور کشمیرکو ملکی رائے عامہ کے سامنے بطور عفریت کے پیش کرنے کی اپنی اختراعی فکر پر بضد رہا تو کشمیر سے آنے والے وقتوں میں کسی اور شکل میں ردعمل بھی سامنے آسکتا ہے دہلی کیلئے لازم ہے کہ وہ آہنی پنجہ کا استعمال مخصوص فکر کے حامی دیش دروہی عنصر کے خلاف ضرور کریں لیکن لاکھوں کی آبادی کے جمہوری عمل اور آئین کی بالادستی پر جس یقین اور عزم کا برملا اظہارعوام نے کیا ہے ان کا احترام اپنے اوپر واجب رکھیں۔