جموںوکشمیر میں تشکیل حکومت کا مرحلہ سرپرآن پہنچ گیا ہے اور حصول اقتدار کی دوڑ میں سبقت لے جانے کیلئے مختلف سیاسی عنصر نہ صرف آپسی رابطوں میں مشغول ہیں بلکہ نئے اتحادوں اور باہمی رشتوں کی تجدید کی سمت میں بھی اپنے ہاتھ پیر ہلاتے نظرآرہے ہیں۔
کانگریس اور نیشنل کانفرنس کا انتخابات کے انعقاد سے قبل آپسی گٹھ جوڑ کے بارے میں ایگزٹ پول برتری تو دکھا رہا ہے لیکن قطعی اکثریت نہیں۔ اسی طرح حکمران جماعت بی جے پی کے تعلق سے بھی ایگزٹ پول کچھ نرم گوشہ نہیںدکھا رہا ہے۔ البتہ یہ دونوں آپسی مخالفین اپنی اپنی حکومت تشکیل دینے کے بارے میں پُر عزم بھی ہیں اور مسلسل دعویٰ بھی کررہے ہیں ۔ لیکن درپردہ دوسروں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے رابطوں میںشدت لائی گئی ہے۔
اس حوالہ سے محبوبہ مفتی کی قیادت میں پی ڈی پی کا لہجہ اور رُخ قدرے نرم پڑتا نظرآرہا ہے ، پارٹی کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت بی جے پی کو حاشیہ پر رکھنے کیلئے وہ سیکولر عنصر کے ساتھ ہاتھ ملانے کیلئے تیار ہے جبکہ فاروق عبداللہ نے اس پراپنے ردعمل میں محبوبہ مفتی کا نہ صرف خیر مقدم کیا ہے بلکہ ایسا راستہ اختیار کرنے پر انہیں مبارک باد بھی پیش کی ہے۔ کانگریس کا ریاستی صدر طارق قرہ کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کے دروازے ہم خیا ل جماعتوں کیلئے بھی اور انفرادی سطح پر بھی کھلے ہیں اور ان کا خیر مقدم کیا جائے گا۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی اور طارق قرہ کے یہ خیر مقدمی بیانات دیر آئید درست آئید ہی کے مترادف ہیں لیکن انتخابات کے انعقاد سے قبل کشمیر کا اوسط شہری ،حساس سیاسی طبقے کیا اس خواہش کا بار بار اظہار نہیں کرتے رہے کہ کشمیر کا ووٹ پارٹیوں ’’میں ہوں‘‘ کے طرزعمل سے تقسیم درتقسیم ہوتا جارہا ہے اور یہ تقسیم عوام کی طرف سے لنگڑا منڈیٹ کی صورت میں سامنے آسکتا ہے ۔لہٰذا وقت کی آواز ، نظریہ ضرورت اور وقت کی مجبوریوں اور مصلحتوں کے پیش نظر آپسی اتحاد کی لڑی میں پروسنے کی کوشش کی جائے، لیکن یہ سارے سیاسی ذمہ دار اپنے اپنے متکبرانہ اور اندھے گھوڑوں پر سے نیچے اُترنے کیلئے آمادہ نہیں ہوئے اور سارے اپنے اپنے راستوں پر ہولئے یہاں تک کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے کچھ ا نتخابی حلقوں میں دوستانہ میچ کھیلنے کا بھی مضحکہ خیز ڈرامہ سٹیج کیا جبکہ مرکزی سطح پر جموں خطے کے حلقوں میںانتخابی مہم میں شرکت کیلئے کوئی نامور کانگریسی لیڈر میدان میں اُترا نظرنہیں آیاجس کا براہ راست فائدہ حکمران جماعت بی جے پی کو ملا۔
اس حوالہ سے راہل گاندھی نے بھی ایک فاش غلطی یہ کی کہ اس نے بانہال اور سوپور کے انتخابی جلسوں میں شرکت کی جن دونوں حلقوں میں دوستانہ میچ کھیلا جارہا تھا۔ برعکس اس کے بی جے پی کے درجنوں چھوٹے بڑے قد کے لیڈران نے جموں کے انتخابی حلقوں پر زبردست یلغار کی ، مذہبی جذبات کو اُبھارا، علاقائی سطح کی سیاست کا یہ کہکر راستہ اختیار کیا کہ اب کی بار جموں کی سرکار اور کشمیر کا نا م لئے بغیر جموں کے ساتھ نابرابری اور امتیاز کا گھنائونا اور روایتی کارڈ کھیل کر میدان مارنے کی کوشش کی جبکہ کچھ ایسے اقدامات اور سرگرمیوں کو بھی جلا بخشتے رہے جو ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزیوں کے دائرے میں شمار کئے جارہے ہیں لیکن الیکشن کمیشن نے اس ضمن میں اپنی جانبدارانہ روش برقرار رکھتے ہوئے ان خلاف ورزیوں کا کوئی سنجیدہ نوٹس نہیں لیا۔
بہرحال بقول کسیٔ ’’عقل آتی ہے بشیر کو ٹھوکر کھانے کے بعد‘‘اب آگر کشمیر نشین تین ہم خیال پارٹیوںکو اپنی حالیہ سیاسی حماقتوں اور غلط اندا زفکر کا احساس ہورہا ہے اُس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے لیکن ساتھ ہی حکومت کی تشکیل کی سمت میں جو دائو پیچ کھیلے جارہے ہیں اور جن درپردہ سرگرمیوںاور رابطوں کے تعلق سے اطلاعات منظرعام پر آرہی ہے اُن کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہوئے ملکی سطح کے کچھ ایک مفکر اور سیاسی پنڈت اس رائے بلکہ خدشے کو زبان دے رہے ہیںکہ جس طرح ماضی میں کانگریس نے پنجاب میں اپنا دبدبہ قائم رکھنے کیلئے بھندران والے کو جنم دے کر اسے قدآور بنایا اُسی سے مشابہت اپروچ کوکشمیر میںاختیار کرکے ایک نہیں بلکہ بیک وقت کئی بھندران والوں کو جنم دینے کا راستہ اختیار کیاجارہا ہے ۔ اس راستہ کااختیار کرنے کا مقصد ماسوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ کشمیرنشین قومی دھارے سے وابستہ جماعتوں اور لیڈر شپ کو کشمیرکے سیاسی منظرنامہ سے غائب کردیا جائے او راقتدار کی ہوس گیری کی لالچ میںنئی لیڈر شپ کو اُبھار کر ان کی سرپرستی کی جائے، قطع نظراس کے کہ ماضی میںقومی دھارے سے وابستہ جماعتوں نے ہی کشمیرمیں ترنگا لہرائے رکھا جبکہ بھندران والے کا روپ دھارن کرنے کی خواہش رکھنے والوں کا ماضی قریب کی فساد زدہ منظرنامے کا جو رول اور کردار رہا ہے ، اسے اندھی سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر، نظرانداز کیاجارہا ہے۔
الیکشن کی گہما گہمی کے دوران سیاسی شخصیات جذبات میں آکر بھی کچھ نہ کچھ بے دھڑ کے زبان پر لاہی رہتے ہیں۔ اس تعلق سے عموماً یہ کہا جارہا ہے کہ ایسے بیانات محض وقتی ہوتے ہیں جو الیکشن مہم کے خاتمے کے ساتھ ہی خاتمہ پر منتج ہو جاتے ہیں۔ اس تعلق سے سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد نے بھی الیکشن مہم کے دوران کچھ یبانات دیئے جن بیانات میںریاستی درجہ اور دفعہ ۳۷۰؍ کی بحالی کے حوالہ سے وہ اپنے خیالات کو بار بار یہ کہکر زبان دیتے رہے کہ کشمیر نشین سیاسی پارٹیاں عوام کو گمراہ کررہی ہیں جبکہ ریاستی درجہ اور ۳۷۰؍ کی بحالی کا اختیار صرف اور صرف دہلی کو ہے۔ سنجیدہ ووٹر نے اس بیان کے تسلسل کو دانستہ سیاسی عمل کا ایک جز قرار دیتے ہوئے یکطرفہ اور جانبدارانہ مگر پردے میں میں رہ کر ایک مخصوص فکر کی حمایت کا خاموش روپ قرار بھی دیتے رہے اور محسوس بھی کرتے رہے۔ جبکہ آزاد صاحب اپنی تقریروں میںخطہ چناب کی ترقی اور اسے ماڈل خطے کے طور ترقی دینے کا دعویٰ بھی کرتے رہے ،اس علاقائی فکر کی یقین دہانی کا بھی جموںوکشمیر کے دوسرے حصوں میںردعمل سامنے آتار ہا۔
جموں سے اب کی بار کسی بھی حالت میں ہندو وزیراعلیٰ تعینات کرنے کے اعلانات جموں وکشمیر کے مخصوص جغرافیائی تناظر آبادی کا تناسب اورمخصوص تشخص کے پس منظرمیںعلاقہ پرستی اور فرقہ پرستی کا عملی مظاہرہ قراردیاجارہا ہے ۔ کشمیر سے اس نعرے کاووٹ کی صورت میں کیا کچھ ردعمل ہوا ہے اس کے بارے میں فی الحال قطعیت کے ساتھ کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے البتہ اس نعرے کو بلند کرنے والی سیاسی جماعت سے خود جموںکے لوگ یہ چبھتا سوال مسلسل طور سے کررہے ہیں کہ گذرے ۵؍سال کے دوران کیا جموں کا کوئی ایسا شہری اس صلاحیت کا مالک نہیں تھا کہ اسے گورنر کے مشیر کے طور ہی تعینات کیاجاتا، جبکہ اسی سے مشابہت رکھنے والے سوالات جموں کے دوسرے کئی شعبوں کی نمائندگی کے تعلق سے بھی گردش میں ہیں۔
جہاں تک کشمیرکا تعلق ہے تو امکان ہے کہ چند حلقوں سے آزاد اُمیدوار کا میابی حاصل کرسکتے ہیں لیکن انہوںنے جو الیکشن مہم چلائی وہ عوامی اشوز اور منفرد تشخص کے تحفظ سے عبارت نہیں تھی بلکہ اپنے ضبط شدہ اثاثوں کی بحالی، پارٹی پر عائد پابندی ہٹانے اور دوسرے مراعات کے حصول کے حوالہ سے رہی ۔سمجھا جارہا ہے کہ یہ کامیابی کی صورت میں سودا طے کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔