نئی دہلی//مجوزہ وقف بل سے حکومت کی بد نیتی اور اس کے برے ارادوں کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ اگر یہ قانون بن گیا تو اس سے مساجد، مدارس، قبرستان، درگاہ، کربلا اور خانقاہیں محفوظ نہیں رہیں گی۔ حکومت موجودہ وقف قانون میں ایسی تبدیلیاں کرنا چاہتی ہے ، جس سے وقف املاک پر غیر قانونی قبضہ داروں اورمافیاو[؟]ں کے قبضہ کی راہ ہموار ہو جائے ۔ان خیالات کا اظہار انڈیا اسلامک کلچر ل سینٹر کے زیراہتمام وقف ترمیمی بل 2024 پر قومی کانفرنس کے دوران شرکائنے کیا۔
کانفرنس میں مجوزہ وقف ترمیمی بل کو مسترد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس کی بھر پور مخالفت کا فیصلہ کیا گیا۔ مقررین نے اس کے خلاف مشترکہ پارلیمانی کمیٹی اور دیگر پلیٹ فارم پر بھی آواز اٹھانے کا اعلان کیا۔
کانفرنس کے شرکائنے کہا کہ بل کا مسودہ کسی ایسے شخص نے تیار کیا ہے جو وقف کے تصور سے بھی ناوقف ہے ۔ اس بل میں وہ تمام خرابیاں موجود ہیں جس سے وقف املاک پوری طرح خطرہ سے دوچار ہو جائیں گی۔
مقرین نے کہا کہ مجوزہ وقف بل سے حکومت کی بد نیتی اور اس کے برے ارادوں کی نشاندہی ہوتی ہے ۔اگر یہ قانون بن گیا تو اس سے مساجد، مدارس، قبرستان، درگاہ، کربلا اور خانقاہیں محفوظ نہیں رہیں گی۔ حکومت موجودہ وقف قانون میں ایسی تبدیلیاں کرنا چاہتی ہے ۔ جس سے وقف املاک پر غیر قانونی قبضہ داروں، مافیاو[؟]ں کے قبضہ کی راہ ہموار ہو جائے ۔
دانشوروں نے اس تاثر کو بھی سختی سے مسترد کیا کہ وقف کے پاس ریلوے کے بعد سب سے زیادہ جائیدادیں ہیں۔ مقرین نے نشاندہی کی کہ صرف تمل ناڈو، آندھرا پردیش اور کسی حد تک تلنگانہ کے مندروں کے پاس وقف سے کہیں زیادہ اراضی ہے ۔ کانفرنس میں یہ احساس ابھر کر آیا کہ موجودہ وقف ترمیمی بل کا مقصد مسلمانوں سے دشمنی نکالنے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ بل کے سیاسی اور سماجی پہلوو[؟][؟]ں پر بھی روشنی ڈالی گئی۔
مقرین میں سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد، وجہی شفیق، زیڈ کے فیضان، سابق آئی آر ایس آفیسر سید محمود اختر، سید ظفر محمود، ایم این چودھری، سابق ہائی کورٹ جج جسٹس اقبال انصاری، ذیڈ یو خان، انتخابی کمیشن کے سابق کمشنر ایس وائی قریشی، سیاسی مبصر تسلیم رحمانی، خواجہ ایم شاہد، سول سوسائٹی ممبر سردار دیا سنگھ، وقف ویلیئر فورم کے چیرمین احمد جاوید، مشہور صحافی قربان علی، جے پی سی کے رکن ممبر پارلیمنٹ محیب اللہ ندوی اور انڈیا اسلامک سینٹر کے صدر سلمان خورشید صاحب شامل رہے ۔ سردار دیا سنگھ نے سکھوں کی طرف سے اسلامک سینٹر کی اس مہم میں ساتھ دینے کا یقین دلایا۔ سلمان خورشید صاحب نے کہا کہ وقف کے اہم مسئلہ پر سینٹر کی جانب سے یہ پہلا قدم اٹھایا گیا ہے ۔ سینٹر اہل وطن کو اس مسئلہ کے بارے میں واقف کرانے کی کوشش کرے گا۔ ساتھ ہی اس بل پر تفصیلی گفتگو کے لئے ورکشاپ کی جائے گی۔ واپس کرانے کے لئے جو بھی آئینی طریقے ہوں گے انہیں اپنایا جائے گا۔
کانفرنس میں تمام شرکائنے یک زبان کہا کہ مجوزہ بل اگر منظور ہوا تو اس کے نتیجہ میں وقف کی شکل و صورت اور حیثیت ختم ہو جائے گی۔ برسراقتدار جماعت اسے تباہ کرنا چاہتی ہے ۔ حالانکہ وقف سے مستفید ہونے والوں میں بیوائیں، غریب، یتیم اور مساکین شامل ہیں۔ وقف جائیدادوں میں قبرستان، مساجد، درگاہ، کربلا، خانقاہ اور دیگر مذہبی مقامات شامل ہیں جنہیں اس بل کی وجہ سے خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ لہٰذا تمام شرکائاور حاضرین نے ذاتی طور پر اور دیگر تنظیموں کے ذمہ داروں کی جانب سے بل کو مکمل طور پر مسترد کرنے کی تجویز پاس کی گئی۔ نائب صدر محمد فرقان نے شرکائکا استقبال کیا، مشہور ایڈوکیٹ بہار برقی نے نظامت کے فرائض انجام دیئے جبکہ کہکشاں صاحبہ نے شکریہ کی تحریک پیش کی۔ اس میں سینٹر کے ممبران کے علاوہ ملک کے معروف دانشور، وکلاء، بیروکریٹس، لیڈران، غیر سرکاری رضاکار تنظیموں کے ذمہ دارن اور سماجی کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
خیال رہے کہ یہ کانفرنسآئی آئی سی سی کے صدر اورسابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کی صدارت اورنائب صدر محمد فرقان احمدکی نگرانی میں منعقد ہوئی۔