اس الیکشن نے بہت ساروں کے چہروں پر پڑے نقاب اُلٹ کے رکھدیئے ہیں۔ کسی کا باطن بے نقاب ہوتا جارہا ہے تو کسی کا ظاہر ، کوئی سیاسی شعور اور سیاسی نظریہ کے حوالہ سے جاہل اور غافل نظرآرہاہے تو کوئی شعوری تو کوئی لاشعوری طور دوسروں کے مفادات کا رکھوالا اور محافظ بن کر کشمیر اور کشمیری عوام کے وسیع تر مفادات ، حال اور مستقبل کو دائو پر لگا کرا پنے کسیِ کسیِ مفاد کی تکمیل کی خاطر اخلاقیات اور اپنے ضمیر تک کا سودا کرنے کیلئے ماہی بے آب کی طرح تڑپتا دیکھاجارہاہے۔
کشمیر کے مخصوص سیاسی منظرنامے پر محض ایک سرسری نگاہ ڈالی جائے تو ہوس اقتدار میں بے ضمیروں اور سودا گروں کی لمبی قطار اندر قطاریں دور دور سے نظرآرہی ہیں۔ بانت بانت کی بولیاںبولنا ، بلند وبانگ دعویٰ کرنا ، جھوٹ پر مبنی فسانے تراش کر پیش کرنا اور درپردہ شراکت اور مفاہمت ناموں پر دستخط ثبت کرنا اب معیوب نہیں سمجھا جارہا ہے۔
گذرے دس سالوں کے دوران کشیر اور کشمیری عوام کو جن سنگین نوعیت کی ازیتوں ، فکری دہشت گردی، مصائب،معاشی بدحالی، سیاسی عدم استحکام اور بے چینی کا سامنا کرنا پڑا ان معاملات کو لے کر نہ صرف انتخابی منشوروں کو ترتیب دیاگیا ہے بلکہ عوام کی توجہ اور ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے انہیں یقین دلایا جارہا ہے کہ وہ سب کچھ کریں گے اگر اقتدار ان کے ہاتھ لگ جائے۔ سوالات تو بہت سارے ہیں، ایک سوال تو یہ بھی ہے کہ نہ اختیارات ہاتھ میں ہیں، نہ فیصلہ سازی کی سیڑھی کا کوئی زینہ ، چپراسی کی خدمات حاصل کرنے تک کیلئے دہلی سے دست بدستہ رجوع روز کا معمول بن رہے گا، یہ اور دوسرے کئی سوالات کا جواب یہ دیا جارہا ہے کہ لنگڑی اسمبلی کی حیثیت تو مانتے ہیں لیکن اہداف حاصل کرنے کیلئے اس لنگری اسمبلی میںداخل ہونا حصول اقتدار اور فیصلہ سازی کی سمت میں پہلی سیڑھی ہے ۔ دہلی کاکیجریوال بھی یہی کہتا تھا کہ وہ سیڑھی کا پہلا زینہ طے کرکے وہ سب کچھ حاصل کرے گا جو حکومت کا نظم ونسق چلانے کیلئے درکار ہے۔
کم وبیش ہر ایک کے منشور میںوہی بات درجہ ہے جو زبان زدعام ہے لیکن یہ آپس میں تعاون کرنے کیلئے تیار نہیں، بلکہ آپسی اتحاد کو یا تو معیوب تصور کررہے ہیں یا گالی!کتنی بدقسمتی ہے کہ کشمیر کی خیر خواہی کا علم بلند کرنے والے یہ سیاسی قبیلے ایک دوسرے کا گریبان پکڑ کر گالیوں ،طعنوں اور کردار کشی سے مشابہت انداز فکر اور اپروچ کو اپنا سیاسی قبیلہ تصور کررہے ہیں۔ مختصر ترین الفاظ میں ان کے بارے میں کہاجاسکتا ہے کہ یہ نہ کشمیر اور نہ ہی اہل کشمیر کے ہمدرد اور خیرخواہ ہیںبلکہ اپنے طرزعمل اور اپنے مفادات کے حوالہ سے اپنے سیاسی محلات کی تعمیر کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور ایک دوسرے کو دلدل میں دھکیل کر اپنے لئے راستہ ہموار کرنے میں کسی رئو رعایت کا مظاہر نہیں کریں گے۔
دعویٰ کشمیر اور کشمیری عوام کے وسیع تر مفادات کے تحفظ کے تناظرمیں اپنے چناوی منشوروں کو ترتیب دینے کے ان سبھی دعویداروں نے جموں میں جاری بی جئے پی کے چنائو منشور کا مطالعہ کیا ہوگا۔ پارٹی کا یہ چنائو منشور اس پارٹی کی اپنی صوابدید ، اپنی سیاسی ترجیحات، اپنے نظریات اور موقف کے حوالہ سے ترتیب دیاگیا ہے۔اس میں وعدوں کی صورت میں ۲۵؍ ضمانتوں کی یقین دہانی موجود ہے۔ بحیثیت مجموعی جموںوکشمیرکا بار بار حوالہ تو مطالعہ میں آرہا ہے لیکن اس منشور کی خاص بات جو نوٹ کی جارہی ہے اس کا تعلق چنائو منشورمیں جموںمخصوص وعدوں اور یقین دہانیوں سے ہے۔ جموں کی ترقی کے حوالہ سے کئی ایک منصوبوں کا خاکہ پیش کیاگیاہے ، ریلوے لائنوں کا وسیع جال بچھانے کیلئے جموں کے دور افتادہ علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے، دریائے توی کی گجرات کے سابرمتی طرز پر ترقی دینے کا منصوبہ پیش کیاگیاہے ، کشمیرکا واحد دریائے جہلم منشور کے کسی کھاتے میں نہیں، البتہ کشمیر میں سومندروں کی تعمیر وتجدید اور جہلم میںکسی جگہ آرتی کی تقریب منعقد کرنے کیلئے بات کی گئی ہے جبکہ کشمیر میں اکثریتی فرقے سے تعلق تاریخی اعتبار سے کئی مذہبی اور مقدس جگہیں جو عرصہ سے کستہ حالت میں ہیں ان کی تعمیر وتجدید کاکوئی تذکرہ نہیں، جموں کے حوالہ سے خاص طور سے یہ بات کی گئی ہے کہ ’جموں خطے کی جدوجہد وںکا اعتراف کرتے ہوئے جموں کی سبک رفتار ترقی کویقینی بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔ جموں میں سپیشل اکنامک زون قائم کرنے کی پیشکش ، جموںوکشمیر کے تنظیم نوایکٹ میںلسانیات کے حوالہ سے پانچ زبانوں کو تسلیم کیاگیا ہے لیکن اس منشور میں ڈوگری، کشمیری اور ہندی کو سرکاری زبانوں کے طور تسلیم کرنے کی بات کی گئی ہے جبکہ ۹۰ فیصد آبادی کی زبان اردو ہے اور ان میں سے اکثریت اُردو کو اپنی دوسری مادری زبان تصور کررہی ہے۔
پارٹی کے چنائو منشور میں کشمیرمخصوص کچھ پروجیکٹوں کی بھی بات کی گئی ہے لیکن تشنگی محسوس کی جارہی ہے ۔ کشمیرنشین سیاسی پارٹیوںکے لئے اس میں مخصوص پیغام یہ ہے کہ اگر حکمران جماعت جموں کو اپنے لئے سیاسی قلعہ تصور کررہی ہے اور اس قلعہ کو اپنے لئے اور مستحکم ومضبوط بنانے کی سمت میں مزید اقدامات اور منصوبے مرتب کررہی ہے تو کشمیرکو اپنا اپنا سیاسی قلعہ تصور کرنے والی سیاسی جماعتوں کی سوچ کیا ہے ؟ ان کی اس سوچ کے آگے اب بڑے بڑے سوالیہ لگے نظرآرہے ہیں ، یہ سوالیہ تودکھائی دے رہے ہیں البتہ ان سوالیہ کو وہ اپنی سیاست اور محدود سیاسی نظریے کے تعلق سے کسی اہمیت اور توجہ کا حامل نہیںسمجھتے۔
ایک اور توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ کل تک پی ڈی پی خود کو کانگریس کی قیادت میں انڈیا بلاک کی اکائی تصور بھی کررہی تھی اور دعویٰ بھی، لیکن اب کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے درمیان انتخابی مفاہمت کو لے کر نہ صرف بیان بازی کی جارہی ہے بلکہ ان دونوں پارٹیوں کے اتحاد کو صرف اوار صرف حصول اقتدار کی سمت میں گٹھ جوڑ قرار دے رہی ہے۔ محبوبہ جی کی یہ یوٹرن ناقابل فہم ہے۔ اسی حوالہ سے اس کے ایک نامزد اُمیدوار جس نے بڈگام حلقے سے کاغذات داخل کئے ہیں نے کمیونٹی (فرقے) کی بُنیاد پر اپنے لئے ووٹوں کی اپیل کی ہے اور عمرعبداللہ کو اشرافیہ کا نمائندہ قراردیا ہے۔ مذکورہ اُمیدوار نے اس بیان کو فرقہ واریت کا زہر پھیلانے کے مصداق قراردینے کی ہر گنجائش موجود ہے لیکن پارٹی کی قیادت اپنے اُمیدوار کی ایسی فرقہ واریت کا نوٹس نہیں لے گی کیونکہ ایسے معاملات اس کی سیاست اور سیاسی نظریے کی سرشت میںنہیں ہے جبکہ ریکارڈ پر یہ اعلان بھی بطور گواہ کے موجود ہے کہ جب مفتی محمدسعید پہلی بار اقتدار کے حوالہ سے ریاست میںسیاہ وسفید کے مالک بنا ئے گئے تو انہوںنے جنگجوئوں کو مشورہ دیا کہ اب جبکہ ’’میں آیا ہوں تو مجھے اپنا ترجمان سمجھیں، جبکہ جموں وکشمیر میں الیکشن کے انعقاد کو پاکستان کے کسی تعاون کا ثمرہ قراردیاتھا ۔ اس نظریہ اور چاہت کی سیاست ہو تو عوام کے مفادات کا بیڑہ غرق ہونا باعث حیرانی نہیں!