منگل, مئی 13, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

الیکشن کا بگل بجایا گیا، اب آگے کیا؟

خدشات، سوالات، سیاسی مصلحتیں اور معاشرتی بکھرائو

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-08-18
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

بالآخر برف پگل گئی ، الیکشن کا بگل بجا دیا گیا، شیڈول کا اعلان بھی کردیاگیا ، کچھ خیر مقدم کررہے ہیں کچھ انعقاد میں چھ سال کی تاخیر پرسوال اُٹھارہے ہیں، کچھ خدشات کا یہ کہکر اظہار کررہے ہیں کہ عین آخری لمحات میںسول انتظامیہ کے تعلق سے مختلف شعبوں اورپولیس انتظامیہ میںمحض چند گھنٹوں کے اندر اندر بڑے پیمانے پر تقرریوں اور تبادلوں کے احکامات کی برسات انتخابات کے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونے پر شکوک کو جنم دے رہے ہیں جبکہ کچھ الیکشن کے انعقاد کا یہ کہکر خیر مقدم کررہے ہیں کہ شاید سالوں بعد کشمیرکو کوئی نئی صبح نصیب ہوگی۔
الیکشن کے حوالہ سے اس نوعیت کے سوالات اور خدشات کو ہر گز زبان نہ ملتی اگر کشمیر میں الیکٹورل پراسیس کے حوالہ سے ماضی کاکوئی عمل یا ریکارڈ شاندار رہا ہوتا اور عوام کے اس جمہوری اور آئینی حق کے ساتھ اندھی سیاسی اور انتظامی مصلحتوں کے پیش نظر چھیڑ چھاڑ کاراستہ اختیار نہ کیا گیا ہوتا، ماضی کی اس چھیڑ چھاڑ کے کچھ کل پرزے ابھی حیات ہیں اور الیکشن کے نام پر اُس فراڈ، جعلسازی او ردھوکہ دہی کی شہات کا آج بھی کلمہ پڑھنے کو غالباً تیار ہیں۔
بہرحال کشمیر نشین کم وبیش سبھی سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کے الیکشن شیڈول کا خیر مقدم کیا ہے لیکن ساتھ ہی اس خواہش کا اظہار توقعات کے طور کیا ہے کہ چنائو کمیشن سبھی پارٹیوں اور ان سے وابستہ الیکشن میدان میں اُترنے والے سبھی اُمیدواروں کیلئے یکساں مواقع بھی فراہم کرنے کو یقینی بنائے گااور سیکورٹی حصار کے تعلق سے بھی اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھائے گا۔ تاہم نیشنل کانفرنس نے عین الیکشن کے موقعہ پر انتظامیہ کے مختلف شعبوں میں تبادلوں کی برسات کو مشکوک قرار دیتے ہوئے چنائو کمیشن سے وضاحت طلب کرلی ہے اور اس حوالہ سے باضابطہ مکتوب بھی روانہ کیاجارہاہے البتہ محبوبہ مفتی کی پارٹی کی طرف سے اس مخصوص معاملے کو مشکوک قرار دیتے ہوئے صرف سوال اُٹھایا ہے۔
اب جبکہ الیکشن کا بگل بجا دیاگیا ہے سیاسی پارٹیاں بھی حرکت میں آگئی ہیں۔ چنائو منشوروں کو عوام کے روبرو پیش کرنے اور اپنے اُمیدواروں کے انتخاب اور اعلان کیلئے ان کے پاس اب زیادہ وقت دستیاب نہیں، جبکہ قبل از وقت مختلف ہم خیال پارٹیوں کے درمیان انتخابی گٹھ جوڑ یا مفاہمیت کیلئے غوروفکر اور صلاح ومشورہ کیلئے زیادہ وقت بھی دستیانہیں لیکن نیشنل کانفرنس کا سرپرست اس حوالہ سے دوٹوک اور واضح الفاظ میںاعلان کرتا سنا جارہا ہے کہ کسی کے ساتھ کوئی گٹھ جوڑ نہیں ہوگا۔اس تعلق سے پارٹی کے دوسرے لیڈ رعمرعبداللہ کا استدلال یہ ہے کہ اگر چہ گٹھ جوڑ کیلئے ان کی پارٹی کے دروازے ابھی کھلے ہیں لیکن جس کے ساتھ مفاہمت متوقع خیال کی جا رہی تھی وہ پارٹی کے خلاف بیان بازی پراُتر آئی ہے جبکہ ملکی سطح کی اپوزیشن انڈیا بلاک کا بھی حالیہ پارلیمانی الیکشن کے دوران ’خاموش رول‘ پر پارٹی کو مایوسی ہے۔لیکن فاروق عبداللہ اپنی پارٹی اور پیپلز کانفرنس کے ساتھ کسی بھی طرح کی مفاہمت کے حق میں نہیںجو بقول ان کے حکمرانوں کی سیاسی شکمی شریک ہیں۔ پھر مفاہمت کیلئے محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی اور کانگریس باقی رہ جاتی ہے۔ لیکن ان کے ساتھ بھی کچھ آپسی ناراضگیاں اور تلخیاں موجود ہیں۔
مقابلہ اسمبلی کی مجوزہ ۹۰ نشستوں کیلئے ہے۔ کشمیر سے ۴۷ اور جموں سے ۴۳؍ جن میں سے مختلف زمروں کے لئے ۱۶؍ نشستیں مخصوص ہیں۔ جو منظرنامہ فی الوقت مشاہدہ میں ہے اُس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ کوئی پارٹی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ اپنے بل بوتے پر سادہ اکثریت حاصل کرے جبکہ دو تہائی اکثریت کی توقع تودور کی بات ہے۔ اگر چہ پارلیمانی الیکشن کے نتائج کی روشنی میں نیشنل کانفرنس کو ۳۴؍ اسمبلی حلقوں میں برتری حاصل ہوئی ہے اور کانگریس اور پی ڈی پی کو سات ، سات حلقوں میںجیت درج ہوئی ہے جبکہ بی جے پی ۲۹؍ حلقوں میں اپنے لئے کامیابی کے جھنڈے گاڈ چکی لیکن یہ ضروری نہیں کہ آنے والے الیکشن میں بھی رائے دہندگان اپنے اسی فیصلے یا عمل کا اعادہ کریںگے۔ ان کی پسندناپسند اور ترجیحات میںتبدیلی بھی ممکن ہے جبکہ ملکی سطح پرایسا کئی بار مشاہدہ میںآچکا ہے، لہٰذا اس کی روشنی میں پارٹیوں کو اپنی حکمت عملیاں سر نو ترتیب دینی پڑئیگی۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اسمبلی الیکشن میںووٹوں کے شرح تناسب میں پارلیمانی الیکشن میں رہی شرح تناسب کے برعکس بڑھوتری ہو کیونکہ اسمبلی الیکشن اور پارلیمانی الیکشن کے حوالہ سے لوگوں کی ترجیحات اور ضروریات بہت الگ اور مختلف ہوتی ہیں۔ اس بات کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے کہ نتائج سامنے آنے کے بعد وفاداریوں اوروابستگیوں میں بدلائو دیکھنے کو ملے کیونکہ ایک تو کچھ پارٹیوں کے پاس مالی وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے، دوئم میدان میں کچھ نہ کچھ بکائو ذہنیت کے بھی موجود ہوتے ہیں ۔ مختصر طور سے کہاجاسکتا ہے کہ یہ الیکشن سے کہیں زیادہ شطرنج ہے جس کے کھیلنے کے لئے بساط بچھادی گئی ہے۔ کس کا بادشاہ کس کی بیگم اور کس کا سپہ سالار کس کے سپاہی کو لے اڑانے کیلئے میدان مارے گا کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔
یہ بھی ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ جموں وکشمیر ملک کی دوسری ریاستوں کے برعکس سیاسی، معاشرتی اور جغرافیائی پہلوئوں کے طور بالکل مختلف ہے۔ یہاں بہت سارے امورات اندھی سیاسی ضرورتوں اور مصلحتوں کے مطیع رہ کر ہی طے کئے جاتے رہے ہیں اور انہی کے مطابق فیصلے لئے جاتے رہے ہیں۔ حصول اقتدار اور تحفظ اقتدار کے تعلق سے ماضی کا ریکارڈ کچھ شاندار نہیںہے۔ کشمیر غالباً ملک کی واحد ریاست ہے جہاں آبادی کے مختلف حلقوں کا اپنا اپنا نریٹو اور مفادات کے حوالہ سے مخصوص وژن بھی ہے۔ اس بات کو آسانی کے ساتھ سمجھنے کیلئے ہمیں کچھ ماضی کی طرف لوٹنا پڑے گا جب ملک کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اپنے کٹ پتلی وزیراعظم بخشی غلام محمد سے استفسار کیا تھا کہ یہ تو بتائو کہ آپ اتنے سارے دعویٰ اور باتیں کررہے ہو آخر کشمیرکے لوگ کس کے ساتھ ہیں ، جواب دیاگیا کہ چالیس کے چالیس لاکھ (اُس وقت کی مجوعی آبادی) ہندوستان کے ساتھ اور موقعہ ملنے پرکشمیر کی سرحدوںسے دور دور کے ساتھ بھی۔
کشمیرکے اس معاشرتی بکھرائو کو کشمیر نشین سیاستدانوں نے وقت وقت پر آبیاری کی، بڑھائوا دیا، اپنے حقیر سیاسی مفادات کے حصول اور تکمیل کیلئے اس کو بطور اپنا ایجنڈا اختیار کیا، کچھ سرحد کے اس پار کے ملازم بنے اورکچھ سرحد کے اُس پار کے ملازموں کارول اداکرتے رہے۔ اس طرح کشمیر بحیثیت مجموعی بے بسی کے عالم میں اپنا نریٹو کھوتا رہا، کسی نے اسے وژن او رمشن کا جامہ چڑھایا، کوئی اندرونی خودمختاری کی راگنی پر تھرکتا رہا، کوئی نئے اوتارمیں جلوہ گرہوکر حصول وطنیت کا ترانہ گاتا رہا تو کوئی بخشی مرحوم کا ثا نی بن کر اُس دورکوپھر سے کشمیری عوام پر مسلط کرنے کی خواہش میں سیاست کررہا ہے جس دور کی سیاست موجود ہ دورکے جنہنم کو جنم دینے کا بُنیادی ذمہ دار تصور کیاجارہاہے۔

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

۱۵؍اگست اور پاکستانی میڈیا کا جھوٹ

Next Post

زمبابوے ویمنز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 کی میزبانی کرنا چاہتا ہے

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
ٹی20 ورلڈ کپ 2024 جون میں منعقد ہو سکتا ہے

زمبابوے ویمنز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 کی میزبانی کرنا چاہتا ہے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.