اختیارات کے حوالہ سے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی اس وضاحت کہ ’منتخب حکومت کے پاس بہت سارے اختیارات ہوں گے کیونکہ آئین میں ہر ایک کردار کی وضاحت موجود ہے، ہر کوئی آئین کے مطابق کام کرے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، اختیارات کے دائرے میں رہیں تو سب کچھ ٹھیک ہوگا…اس پس منظر میں تصادم کا امکان کہاں ہے‘ کے باوجود غیر اطمینانی صورتحال برقرار ہے جبکہ کشمیر اور جموں میں متعدد سیاسی حلقے اس وضاحت کو بادی النظرمیںخریدنے کیلئے آمادہ نہیں۔
گورنر کی دوٹوک الفاظ میں اختیارات کی تقسیم اور عمل آوری کے حوالہ سے وضاحت کے باوجود کئی احتجاجی مظاہرے ہوئے اور چھوٹی بڑی ریلیوں کا بھی مشاہدہ ہوا۔ جموں میں خاص طور سے جو حالیہ پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی کے حق میںنتائج کے باوجود بی جے پی اور ایڈمنسٹریشن کو اس حوالہ سے نشانہ بنایاگیا، مخالفانہ نعرے بلند ہوئے اور مطالبہ کیا گیا کہ نہ صرف تمام اختیارات منتخبہ حکومت کو واپس کئے جائیں بلکہ الیکشن سے قبل ریاستی درجہ کی بحالی کو یقینی بنایاجائے۔ اس اعتبار سے جموں خاموش نہیں اور اختیارات اور ریاستی درجہ کی بحالی کے تعلق سے اپنے نریٹو کو واضح اور دوٹوک انداز میں سامنے لارہا ہے لیکن کشمیر خاموش ہے۔ کوئی احتجاج سڑک پر نظرنہیں آرہا ہے البتہ کچھ سیاسی جرگوں کی جانب سے بیانات جاری کئے جارہے ہیں جن میں دبی دبی سی زبان میں ریاستی درجہ کی بحالی کی بات کی جارہی ہے اور اختیارات کی واپسی کو بھی مدہم مدہم انداز میں زبان دی جارہی ہے لیکن شدت کا انداز اب تک صرف عمرعبداللہ کی طرف سے دیکھا جارہا ہے ۔ اگر چہ عمر خود واضح کرچکے ہیں کہ وہ موجودہ ’’لنگڑی اسمبلی ‘بے اختیار والی حکومت ‘‘کا حصہ دار نہیں بن سکتا۔
اختیارات کے حوالہ سے سرکاری وضاحتوں اور اپوزیشن کی جانب سے مطالبات بجائے خود ایک ٹکرائو اور محاذ آرائی کی طرف واضح اشارہ کررہا ہے۔ اگر چہ لیفٹیننٹ گورنر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر کوئی اختیارات کے دائرے میں رہیں تو سب کچھ ٹھیک ہوگا اور تصادم کا کوئی امکان باقی نہیں رہے گا لیکن اختیارات کی تفویض کے حوالہ سے جوحکمنامہ جاری ہوا ہے بین السطور اور غور سے اس کا جائزہ لینے پر یہ بات آشکارا ہوجاتی ہے کہ اسمبلی انتخابات کے بعد جو بھی کوئی حکومت تشکیل پائے گی اس کے ہاتھ میںکچھ بھی نہیں ہوگا،یہاں تک حکومت کا جو بھی سربراہ بحیثیت وزیراعلیٰ ہوگا اور اس کی قیادت میں جو بھی کابینہ ہوگی ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوگا، فیصلہ سازی نہیں ہوگی البتہ دہلی کی جانب سے جو بھی فیصلے لئے جاتے رہیں گے اور جو بھی اقدامات اُٹھائے جاتے رہیں گے ان کی عمل آوری کے لئے وہ حکومت ذمہ دار ہوگی بلکہ عمل آوری اور ذمہ داری کا سارا بوجھ اُسی کے کاندھوں پر ہوگا۔
جموںبہ آواز بلند اپنا مدعا نریٹو کی صورت میں کیوں پیش کررہا ہے اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ جموں کی مجموعی آبادی بلکہ آبادی کا ہر حلقہ اور طبقہ اس حوالہ سے خود کو ’’ زخمی‘‘ محسوس کررہا ہے کہ جس ڈوگرہ ریاست کی تشکیل اور قیام کیلئے جموں کے ڈوگرہ حکمرانوں اور عوام نے قربانیاں دی ہیں اور جس ریاست کی تشکیل کے حوالہ سے وہ اپنے آپ پر فخر محسوس کررہے تھے اُس فخر اور حساسیت کو نہ صرف زمین بوس کرکے رکھدیاگیا، بلکہ ریاست کی تقسیم درتقسیم کے ساتھ ساتھ خطے کی اقتصادیات کے کم وبیش سبھی پہلوئوں اور وابستہ شعبوں کو ان کے ہاتھوں سے چھین کر بیرون جموںوکشمیر کے لوگوں، فرموں اور ٹھیکہ داروں کی جھولیوں میںڈالدیا گیا۔ جموں جوریاست کے درجہ کی تنزلی سے قبل بزنس اور اقتصادیات کے تعلق سے کشمیر سے بھی بہت آگے تھا کو بھی نقصان پہنچایاگیا۔
اس کے برعکس کشمیرکی خاموشی اور دبی دبی سی آواز کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ جموں کی سیاسی قیادت بغیر کسی ڈر، خوف کے متحرک ہے، برعکس اس کے کشمیر کی سیاسی قیادت کے کم وبیش سبھی کردار مصلحت پسند، سمجھوتہ باز، معذرت خواہ اور ابن الوقت تصور کی جارہی ہے، ان کی یہی کمزوریاں جو بحیثیت مجموعی ان میں سرائیت ہوچکی ہیں ان کی غیر فعالیت اور عمومی مصلحت پسند ی کا باعث بنتی رہی ہیں۔
کشمیر اور جموں کے حوالہ سے یہ دونوں اپروچ اگر کسی بات کی طرف عندیہ دے رہے ہیں تو یہ کہ جموں کے لوگ الیکشن کے انعقاد کے بارے میں پُرجوش ہیں اور اختیارات کی واپسی اور ریاستی درجہ کی بحالی کو اپنے انہی جذبات سے وابستہ کررہے ہیں اس کے برعکس کشمیر عوامی سطح پر الیکشن کے بارے میں زیادہ پُر جوش نہیں کیونکہ کشمیر نشین سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت الیکشن کو کسی بھی قیمت پر چاہتی ہیں لیکن اختیارات کی واپسی اور ریاستی درجہ کی بحالی کو وہ ثانوی حیثیت دے رہے ہیں۔ ان کی چاہت یہ ہے کہ وہ منتخب ہوکر اپنی نجی رہائش گاہوں سے نکل کر سرکاری حصار والے بنگلوں میں منتقل ہوسکیں، خزانہ سے اپنی نئی حیثیت کے تعلق سے ہر ماہ بھاری بھرکم تنخواہیں اور دیگر مراعات کے حصول کو یقینی بنائیں، سکیورٹی حاصل کریں وغیرہ وغیرہ ۔
البتہ یہ بات درست ہے کہ اپنی پارٹی کے سربراہ کا مطالبہ ہے کہ الیکشن سے قبل ریاستی درجہ بحال کیاجائے جبکہ عمر عبداللہ بے اختیار اور لنگڑی اسمبلی کا ذاتی حیثیت سے حصہ بننے کیلئے تیار نہیں لیکن اپنی پارٹی کے ممکنہ اُمیدوار وں کیلئے اپنی اس ناپسندیدگی کو ان کی پسند اور چاہت ضرور قرار دے رہے ہیں۔ پی ڈی پی بھی یہی مطالبہ کررہی ہے البتہ اس Cavitکے ساتھ کہ’’ الیکشن عمل میں سرکاری ایجنسیوں کا عمل دخل رہا تو جموںوکشمیر بدستور ایک پولیس سٹیٹ بنا رہے گا‘‘۔
کرگلی اور لداخی عوام اوران کی مشترکہ قیادت اپنے حقوق اور مفادات کے تعلق سے ایک پیج پر ہیں۔ اپنے مطالبات اور حقوق کے بارے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کررہے ہیں اورنہ ہی پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اپنی مشترکہ جدوجہد کو جاری رکھتے ہوئے یہ مشترکہ قیادت وقفے وقفے سے مرکزی قیادت کے ساتھ بات چیت کررہی ہے جبکہ مذاکراتی عمل کو ترجیح بھی دے رہی ہے۔ اس کے برعکس کشمیرکے سیاسی جرگے مرکزی قیادت کے ساتھ کسی مذاکراتی عمل میںنہیں البتہ بیانات کے میزائل داغنے میںیقین رکھتے ہوئے اس مفروضہ پر جیت رہے ہیں کہ مرکزی قیادت ان کی طرف سے داغے جارہے بیاناتی میزائلوں سے خوفزدہ یا مرعوب ہوکر ان کی مانگوں اور خواہشات کے آگے سرخم کرے گی۔ ایسانہیں ہوگا اور نہ ایسا ہونے کے آثار مطلع پر دکھائی دیتے رہے ہیں۔
بہرحال یہ سارا منظرنامہ بہتی گنگا میںہاتھ دھونے کے مصداق تونہیں البتہ کچھ بیرونی جماعتیں اس منظرنامہ کو اپنے لئے بہتی گنگا میںہاتھ دھونے کے ہی مترادف سمجھتی ہیں اوران کی طرف سے الیکشن میں اپنے اُمیدوار کھڑے کرنے کے اعلانات ہورہے ہیں۔ نتیش کمار کی پارٹی کی طرف سے چالیس اسمبلی حلقوں میں اُمیدوار کھڑے کرنے کے اعلان کے بعد اب ایک مرکزی وزیر جس کا تعلق ری پبلکن نامی پارٹی سے ہے نے پندرہ اسمبلی حلقوں میںاپنے اُمیدوار اُتارنے کااعلان کیا ہے۔