کشمیر بیک وقت متعدد مگر سنگین مسائل اور معاملات سے جھوج رہا ہے۔ ان مسائل کا معاشرتی سطح پر کوئی حل تلاش کرنے یا ان گوناگوں معاملات پر قابو پانے کیلئے کوئی تدبیر اور تدبرانہ راستہ اختیار کرنے کی کوئی پہل نظرنہیں آرہی ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں کشمیر ڈوب رہا ہے تاریکیوں کی نذر ہوتا جارہاہے، بدعات اور منفیات کے ساتھ ساتھ منشیات کے مرض میں سراپا مبتلا ہوتاجارہا ہے انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی بے اعتنائی کی روش انداز فکراور طرز عمل کا جزلائنفک بن چکا ہے۔
سیاسی معاملا ت کے حوالہ سے کشمیر نشین مختلف سیاسی نظریات کے حامل سیاسی جرگوں کی سیاست ان کی ذاتی خواہشات اور مفادات کی لونڈی کے سے اندازفکر سے عبارت بن چکی ہے۔ ان سیاستدانوں کا واحد نریٹو الیکشن اور لیلیٰ اقتدار وکرسی کا حصول کے سوا اور کچھ نہیں، کشمیراور کشمیری عوام کے معاشرتی، سیاسی، انتظامی، تہذیبی ، تمدنی، لسانی اور دوسرے وابستہ مفادات اور حقوق کے تحفظ کے تعلق سے سنگین نوعیت کے اشوز ان کے لئے نہ ترجیحات ہیں اور نہ ہی ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔
ادیب، قلم کار، شعراء حضرات اور سماج کے دوسرے معززین اپنی سوچ کے مطابق اپنی پیشہ ورانہ محفلیں آراستہ کرکے ایک دوسرے سے دادِ تحسین وصول کرنے تک محدود ہو چکے ہیں، ان کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے باہر بھی ایک اور دُنیا آباد ہے جس دُنیا کا وہ بھی ان مٹ حصہ ہیں لیکن اُس مخصوص دُنیا کے معاملات کیا ہیں، مسائل کیاہیں، خواہشات کیاہیں، خرابیاں کیا ہیں اور ان خرابیوں کی جڑ کہاں کہاں پیوست ہے اُن سے اِن کاکوئی مطلب اور واسطہ نہیں، یہاں تک کچھ حضرات حالیہ برسوں کے دوران ریاستی اور قومی سطح کے اعزازات سے بھی نوازے جاتے رہے ہیں لیکن اپنے عوام کے تئیں معمولی سی خدمت کی سمت میں اُن حضرات سے منسوب ایک بھی سعی ریکارڈ پر دستیاب نہیں۔
اگران سنگین نوعیت اور مضمرات کے حامل سبھی یاان میں سے کچھ اشوز کو سنجیدگی سے سماجی سطح پر ٹریٹ کیاگیا ہوتا، ان کا تدبرانہ حل تلاش کرنے کی سمت میں کوئی پہل کی گئی ہوتی توآج کشمیرمیں پڑھے لکھے ہنرمند، غیر ہنرمند لاکھوں نوجوان اپنی کاغذی ڈگریوں کو ہوائوں میں لہراتے اپنے مقدر اور اپنی بے کاری اور بے روزگاری سے پریشان حال ہوکر سڑکوں پر مرثیہ خواں نہ ہوتے،حکومتی اعداد وشمارات کے مطابق ۱۴؍لاکھ کے قریب مختلف نوعیت کی منشیات کے استعمال کی لت میں مبتلا ہوکر اپنی جوانیوں کو تباہ کرنے کی دہلیز پر نظرنہ آتے، روز کوئی نہ کوئی نوجوان، لڑکی یا خاتون مختلف سماجی اور گھریلو پریشانیوں بشمول تشدد ، ہراسگی، بے روزگاری اور دوسری طرح کی کسی نہ کسی پریشانی کی وجہ سے ڈل جھیل ، دریا ئے جہلم اور پانی کے دوسرے دستیاب وسائل کی گہرائیوں میں چھلانگیں لگا کر اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرنے کا راستہ اختیار نہ کرتے اور نہ ہی اس مخصوص صورتحال سے تھوڑ اسا پریشان ہوکر اور ہڑبڑاہٹ میں شہر سرینگر کے کچھ پلوں کی باڑ(Fencing) نصب کرنے کا انتظامی فیصلہ یا پہل کا فیصلہ سامنے آتا۔
اس میں دور رائے نہیں کہ کشمیرمیں حالیہ ایام میں بلکہ اب کچھ مدت سے خودکشیوں کے دلخراش اور روح فرسا معاملات یکے بعد دیگرے سامنے آرہے ہیں ۔ لیکن تبصرے تو اس حوالہ سے کئے جارہے ہیں کہ ایک اور خود کشی کا واقعہ سامنے آیا، انتظامی مشینری حرکت میں آکر لاش کی تلاش کررہی ہے، لیکن سوچ کا المیہ یہ ہے کہ کوئی اس پہلو پر بات نہیں کرتا کہ کیوں دریامیں چھلانگ لگاکر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا ، وہ کون سے عوامل اور اسباب ہیں جو اسے خودکشی پر مجبور کرتے رہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ جو چھلانگ لگانے والے کو کسی پل سے دریا میں چھلانگ لگاتے وقت اپنے موبائل میںواقعہ کو عکس بند کررہا ہے، انتظامیہ اپنی ذمہ داری اور فرائض کو صرف اس حد تک محدود تصور کرتی ہے کہ اس کا کام خودکشی سے روکنانہیں اور نہ ہی خود کشی کے اصل وجوہات اورجڑ ے معاملات کا پتہ لگانے سے ہے بلکہ صرف دریا برد کسی کی لاش تلاش کرکے بعد میں لواحقین کے حوالہ کرنے تک ہی محدود ہے جبکہ اب پلوں پر باڑ نصب کرنے سے خودکشیوں کے معاملات پر قابو پاکر اس دلخراش باب کا عنوان تبدیل کیاجاسکتا ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ یہ سارے معاملات، مسائل ، پریشانیاں کشمیراور کشمیریوں کا مقدر بن رہی ہیں۔ جموں میں بھی لاکھوں تعلیم یافتہ بے روزگاری اور بے کاری سے جھوج رہے ہیں لیکن وہ خود کشی کا راستہ اختیار نہیں کرتے، لداخ اورکرگل کی آبادیاں بھی انہی ایسے مسائل اورمعاملات سے نبردآزما ہیں،ان دو ضلعوں میںبھی کوئی شہری اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کاراستہ اختیارنہیں کرتا۔ ان دونوں ضلعوں کی آبادی اپنے لئے ترقی، خوشحالی اور پریشانیوں سے مبرا ماحول کی تعمیر چاہتی ہے، یہ سارے معاملات کیا کشمیرکی سیاسی، سماجی ، مذہبی قیادتوں کے دعویداروں کیلئے لمحہ فکر یہ نہیں ہے، کیوں وہ ایک جٹ ہوکر کشمیرکی سرزمین پر سایہ فگن اس منحوسیت سے نجات حاصل کرنے کا کوئی راستہ اختیار کرنے کیلئے خود کو تحریک وترغیب دینے پر آمادہ نہیں۔
تلخ ترین سچ یہ ہے کہ یہ سارے قبیلے اپنی ذاتی سلطنتوں سے وابستہ حقیر اورمکروہ مفادات کے حصول ، تحفظ اور تکمیل کے سوا کچھ اور سوچ ہی نہیں سکتے ہیں۔ برسہابرسوں کے دوران برسراقتدار رہتے یا مرکز اقتدارسے قر بت کے طفیل وہ سرکاری سکیورٹی حصار میں رہ کر اپنے لئے عیاشیاں بٹورنے اور ہر جائز اور ناجائز مراعات حاصل کرنے اور اپنا نظریاتی دبدبہ قائم رکھنے کی سوچ اور طرزعمل سے کبھی باہر نہیں آئے، معاشرے میں کورپشن اور بدعنوان طرزعمل کی سرپرستی اور معاونت کا بُنیادی کرداراداکرتے ہوئے حقیقت میں انہی قیادت کے دعویداروں نے معاشرے کی تباہی وبربادی کی بُنیادڈالی ، ہرمعاملے پر حصول اقتدار اور تحفظ اقتدار کی خاطر معذرت خواہانہ اور ملازمانہ طرزعمل سے عبارت راستہ اور روش اختیار کرکے لوگوں کے حقوق اور مفادات کا سوداکرتے رہے، اور اب جبکہ لوگوں کے جینے کے کم وبیش سارے راستے بند ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، مختلف معاملات اپنی تمام تر سنگینیوں کے ساتھ انہیں گھیرے میں لیتے جارہے ہیں لیکن اس کے باوجود ان قبیلوں کا ضمیر نہ جاگ رہا ہے اور نہ ہی یہ معاشرے کے تئیں اپنی کسی ذمہ داری کی انجام آوری کو اپنے آپ پر سماجی فرض سمجھتے ہیں۔