فیصلہ سازی کے حوالہ سے تمام اختیارات لیفٹیننٹ گورنر کو تفویض کئے جانے کے مرکزی سرکار کے حالیہ فیصلے کے نتیجہ میں ایڈمنسٹریشن، نظم وضبط، عمل آوری اور اس کے معاشرتی اور سیاسی سطح پر مرتب ہونے والے اثرات اور ممکنہ مضرات پر غور وخوض کیلئے کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کی تجویز کا کم وبیش سبھی سیاسی سٹیک ہولڈروں نے خیر مقدم کرکے اس میں شرکت کا اعلان کیا تھا لیکن ابھی ان اعلانات کی صدائے باز گشت سنائی ہی دے رہی تھی کہ سرمنڈاتے ہی اولے پڑنے کے مصداق کل جماعتی اجلاس کو یہ کہکر موخر کردیاگیا کہ نیشنل کانفرنس کے سرپرست ڈاکٹرفاروق عبداللہ شرکت کیلئے دستیا ب نہیں تھے۔
بادی النظرمیں ہی یہ جواز بے تکا، بے وزن اور لنگڑا محسوس ہورہاہے۔ نیشنل کانفرنس کا کوئی دوسرا لیڈر بھی اس مجوزہ اجلاس میں شرکت کر سکتا تھا لیکن معاملہ کچھ اور ہی نظراور محسوس ہورہاہے۔ غالباً سرمنڈاتے ہی اولے پڑنے کی اصل وجہ کانگریس سمیت کچھ سیاسی پارٹیوں کا یہ موقف بتایا جارہا ہے کہ وہ کسی بھی صورت اورکسی بھی شرط کے بغیر اسمبلی انتخابات کے حق میں ہیں جبکہ انکا کہنا یہ ہے کہ اسمبلی انتخابات اور حکومت کی تشکیل کے بعد اختیارات کی واپسی اور ریاستی درجہ کی بحالی ثانوی حیثیت رکھتے ہیںجن کے حصول کیلئے جدوجہد بعدمیں بھی کی جاسکتی ہے۔
دوسری ایک وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ سیاسی حلقے چاہتے ہیں کہ ممنوعہ جماعت اسلامی پر سے عائد پابندی ہٹاکر اس جماعت کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ہی نہیں بلکہ حوصلہ افزائی بھی ہونی چاہئے جس کی کچھ سیاسی پارٹیوں کی جانب سے مخالفت کی جارہی ہے۔ اس تعلق سے حالیہ پارلیمانی الیکشن کے حوالہ سے پیش آمدہ بعض معاملات اور ۱۹۸۷ء کے بعد سے حالیہ ایام تک اس جماعت اور اس کی کچھ مخصوص فکر کی اکائیوں کی طرف سے رول اور کردار کا بھی حوالہ دیا جارہا ہے جو بقول ان کے منفی ہی نہیں بلکہ فساد پر مبنی تباہ کن رہا ہے۔یہ جواز کہ چونکہ حالیہ پارلیمانی انتخابات میں اس جماعت سے وابستہ کچھ لیڈروں کو ووٹ کا سٹ کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے یا ان لیڈروں کی طرف سے یہ دعویٰ کہ اس جماعت نے کبھی الیکشن بائیکاٹ کی کال دی ہے اور نہ بائیکاٹ کا حصہ رہی ہے کو زمینی اور تلخ حقائق کے ہوتے دیانت دارانہ اور سچ سے عبارت تسلیم نہیںکیاجاسکتا ہے۔
بہرحال جو کچھ بھی کل جماعتی کانفرنس موخر کرنے کے پیچھے اور بھی کچھ معاملات ہوسکتے ہیں جو فی الحال پردوں کی اوٹ میں ہیں۔ لیکن کانگریس جو نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے ساتھ ملکی سطح پر بھی انڈیا بلاک کا حصہ اور اکائیاں ہیں کے درمیان بھی جموں وکشمیر میں جیوتیوں میں دال بٹتی نظرآرہی ہے۔ کانگریس کے ایک ذمہ دار لیڈر نے ابھی چند روز قبل بلکہ کل جماعتی اجلاسوں کے عین لمحات سے قبل ایک بیان دیا جس میں اس نے اسمبلی الیکشن کو نہ صرف ترجیحات میں رکھا بلکہ گورنر کو تفویض اختیارات اور ریاستی درجہ کی بحالی کوثانوی حیثیت دی۔ ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا کہ ان کی پارٹی جموں وکشمیرمیں تمام ۹۰؍ حلقوں سے اپنے اُمیدوار کھڑے کریگی۔ دوسرے الفاظ میں کانگریس لیڈر نے مرکزی سطح پر اپنی پارٹی کی قیادت میںانڈیا بلاک کو جموںوکشمیر میںدفن کرنے کی رسم اپنے ہاتھوں سے اداکی ہے۔
کیایہ بیان بھی فاروق عبداللہ کی کل جماعتی اجلاس میں عدم شرکت کے فیصلے کی ایک اہم وجہ بن گئی ، جس اپوزیشن اتحاد کو قائم اور برقرار رکھنے اور اس کو منطقی انجام تک لے جانے کی وہ اپنی کوششوں میں اب تک کسی بھی حد تک جاتے دیکھے گئے ہیں؟
کل جماعتی کانفرنس کا مدعا ومقصد الیکشن سے قبل ہم خیال پارٹیوں کے درمیان کسی انتخابی گٹھ جوڑ سے جڑے معاملات کو طے کرنے سے نہیں تھا کیونکہ کم وبیش سبھی پارٹیاں اس بارے میں اپنی اپنی پوزیشن واضح کرچکی ہیں۔ صرف کانگریس ہی نہیں بلکہ نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی اور اپنی پارٹی بھی اس بارے میں واضح کرچکی ہیں کہ وہ قبل از الیکشن کسی گٹھ جوڑ کا حصہ نہیں لہٰذا الیکشن کے حوالہ سے مطلع کسی حد تک صاف صاف دکھائی دے رہا ہے۔ البتہ خدشات جن میں سے کچھ کا تعلق ماضی سے ہے جبکہ کچھ کا تعلق روایت اور مشاہدات سے بھی ہے اپنی جگہ بدستور برقرار ہیں۔
البتہ اب کی بار جب بھی الیکشن ہوں گے ان میں ذات پات ،فرقہ بندی، علاقہ پرستی، پہاڑی ، گوجر ،بکروال ، سنی ، شیعہ ، اہلحدیث، ہندو مسلمان وغیرہ عناصر کا بہت بھاری عمل دخل ہونے جارہا ہے جوا ب تک جموںوکشمیر کی الیکشن تاریخ اور پراسیس کا کبھی حصہ نہیں رہے ہیں۔ اس تعلق سے دیکھاجائے تو جموںوکشمیرہر اعتبار سے تقسیم درتقسیم کی دہلیز یں عبور کرچکا ہے بلکہ ووٹ اور ووٹر بھی اسی اعتبار سے تقسیم ہو کر مختلف خانوں سے وابستہ ہوچکا ہے۔ کشمیر یوںتو کئی سیاسی اور معاشرتی المیوں سے جھوج رہا ہے البتہ الیکٹورل پراسیس اور حصہ داری کے تعلق سے شہر اور گام میں جس تفریق کو مخصوص مشن اور وژن جو ہر ایک اعتبار سے ناکام اور لوگوں کی تباہی وبربادی پر ہی منتج ہوا، کے علمبردار ایک سابق وزیراعلیٰ نے متعارف کیا اور آبیاری کی اس کے خاردار کانٹے اب نسل درنسل چبھتے رہیں گے اور اس تقسیم کو حال اور مستقبل کے حوالہ سے بھی جلا بخشتے رہینگے! یہ معمولی تقسیم اور تفریق نہیں بلکہ ہر پہلو کے اعتبار سے غیر معمولی ثا بت ہوتا جارہاہے۔
یہ منظرنامہ بحیثیت مجموعی اوسط کشمیری کیلئے تکلیف دہ ہے ۔وہ اس سیاسی منظر کے ہر ایک پہلو کے اعتبار سے اپنے لئے مایوس کن محسوس بھی کررہا ہے اور نقصان دہ بھی ۔ وہ یہ بات بھی محسوس کررہا ہے کہ اس کو جن شدید نوعیت کے معاملات کا سامنا ہے ان معاملات کے حوالہ سے اس کا اپنا کوئی نریٹو نہیں ، وہ نریٹو یا تو کہیں بھٹک چکا ہے یا سیاسی سٹیک ہولڈروںکے مختلف دعویداروں نے اپنے حقیر اور ذاتی مفادات کے پیش نظر بھٹکا کررکھا ہے۔
جموںخطے کے عوام کو بھی کشمیری عوام کی طرح گوناگوں مسائل کا سامنا ہے اور مطالبات ہیں، لداخ اور کرگل کے عوام بھی اپنے مخصوص مسائل سے جھوج رہے ہیں لیکن ان معاملات کے باوجود ان دونوں کا اپنی ضروریات کی تکمیل اور خواشات کے حوالہ سے نریٹو زموجود ہیں اور ایک روڈ میپ بھی ہے لیکن کشمیرنشین سیاسی سٹیک ہولڈروں کا نہ کوئی روڈ میپ ہے اور نہ کشمیر نسبت کوئی متعلقہ نریٹو ہے۔ کوئی جماعت اسلامی کو میدان میں اُتارنے کی وکالت کررہا ہے تاکہ ماضی قریب کی طرح اس کے شانوں کا سہارا حاصل کرکے اپنے الیکٹورل مفادات حاصل کرسکے تو کوئی بس اپنے لئے اقتدار مخصوص کئے جانے کی سمت میں چالیں آزمارہا ہے اور خوشامد پر مبنی معذرت خواہانہ روش اختیار کرکے دہلی اور سرینگر براستہ جموںلوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کررہاہے۔