منشیات کی سمگلنگ، تقسیم، خریدوفروخت اور استعمال جموںوکشمیر کے تعلق سے اب تشویش ناک مرحلہ میں داخل ہوگیا ہے،ایڈمنسٹریشن کی جانب سے حالیہ کچھ برسوں کے دوران منشیات کے دہندہ اور سمگلنگ میںملوث افراد اور گروہوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیوں، گرفتاریوں اور ان کے منقولہ وغیرمنقولہ اثاثوں اور املاک کی ضبطی کے باوجود یہ دھندہ ہر گذرتے ایام کے ساتھ شدت اختیار کرتا جارہاہے۔
محتاط اندازوں کے مطابق ہزاروں نہیںبلکہ لاکھوں شہری منشیات کی لپیٹ میںآچکے ہیں اور اس لت میں سراپا مبتلا ہوکر نہ صرف اپنے آپ، اپنے خاندانوں بلکہ اب معاشرتی سطح پر بوجھ ہی نہیں بلکہ مصائب کا موجب بھی بن رہے ہیں۔ سماج کا ہر ذی حِس ، حساس اورفکرمند شہری، مقتدر سماجی اور روحانی شخصیات، امام وخطیب حضرات کے ساتھ ساتھ میرواعظ کشمیر بھی اپنی واعظ وتبلیغ کی مجالس میں سماجی رسومات اور بدعات کے ساتھ ساتھ منشیات کے بڑھتے استعمال اور اس کے معاشرے پر مرتب ہوتے جارہے منفی اثرات کے تعلق سے رائے عامہ منظم کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن یہ معاملہ بدقسمتی سے ایسا ہے کہ جواب اخلاقیات اور معاشرتی حدود وقیود کی مقررہ لکیروں کو پھلانگ کر بہت دور تک چلاگیا ہے۔
نہ سمگلنگ، تقسیم کاری اور خریدوفروخت میںملوث سماج دُشمن عناصر اور نہ ہی منشیات کے استعمال اور لت میں مبتلاافراد کیلئے اخلاقی حدود اور معاشرتی قیود کوئی اہمیت یامعنی رکھتے ہیں بلکہ کچھ کیلئے اب یہ منفع بخش دھندہ بن چکا ہے اور کچھ کیلئے لمحاتی اور قلبی سکون۔ لیکن ایڈمنسٹریشن سول سوسائٹی اور دوسرے وابستہ افراد اور اداروں کی مسلسل اور انتھک کوششوں کے باوجود جو لوگ اور ایجنسیاں سمگلنگ اور خرید وفروخت کو کنٹرول کررہے ہیں ان کا ایجنڈا کچھ اور ہی ہے۔ اور جن خطوں کو خاص طور سے نشانہ بنایا جارہاہے اس کے پیچھے جہاں ان کے اپنے سیاسی نظریات اور سیاسی مشن کارفرما ہیں وہیں نشانہ بنائے جارہے خطوں کی آبادی کو مدہوش حالت میں رکھ کر ان بہت سارے ایجنڈا کی تکمیل مطلوب ہے جن کی وضاحت محتاج بیان نہیں۔
کشمیر کو نشانہ بنانے کی یہ فیکٹریاں دراصل طالبان کے افغانستان میں ہیں اور پاکستان اگر چہ اس کی آبادی کا ایک اچھا خاصہ حصہ بھی منشیات کی لت میں مبتلا ہے منشیات کی سمگلنگ اور مارکیٹ کی دستیابی کیلئے محفوظ راہداریاں فراہم کررہاہے۔ یہ محفوظ راہداریاں جہاں کنٹرول لائن کے راستے فراہم کی جارہی ہیں وہیں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بین الاقوامی سرحدوں کے کئی راستوں کو بھی سمگلنگ کیلئے استعمال میںلایا جارہاہے۔
افغانستان کی طالبان اوراس کی قیادت میںحکومت کے کئی چہرے ہیں۔ ایک چہرہ ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ ساتھ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات کو استوار کرنے سے تعلق رکھتاہے لیکن دوسرا چہرہ انہی ممالک اور ان کی آبادی کو اپنے مکروہ مفادات اور عزائم کی تکمیل کے لئے زخم دینے سے ہے ۔اس ایک اور چہرے کا تعلق منشیات کی پیدوار، تقسیم خرید وفروخت اور استعمال پر پابندی سے بھی ہے لیکن یہ سارے چہرے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے تشکیل ماہرین کی کمیٹی کی طرف سے پیش کردہ رپورٹ میں بے نقاب کردیئے گئے ہیں۔
اس مخصوص رپورٹ کے کچھ مندرجات کا مطالعہ کرنے سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور یہ واضح ہوجاتاہے کہ افغانستان کاموجودہ حکمران طبقہ نہ صرف سراپا احسان فراموش ہے بلکہ ناقابل اعتبار بھی ہے۔ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ افغانستان میں منشیات کے جو ذخائر اور بھنڈار موجود ہیںاگر منشیات کی نئی کاشت پر مکمل طور سے پابندی کا نفاذ بھی یقینی بنایاجائے تو بھی منشیات کا یہ سٹاک آنے والے کئی برسوں تک کیلئے کافی ہوگا۔
مثال دیتے ہوئے رپورٹ میںانکشاف کیاگیا ہے کہ طالبان کا ننگر ہار صوبہ کاگورنر محمدنعیم افغانستان کے مشرقی راستوں کو منشیات کی سمگلنگ اور خریدوفروخت کو کنٹرول کررہاہے جبکہ بلخ صوبہ کا گورنر یوسف وفا شمالی خطوں کو کنٹرول کررہا ہے۔منشیات کی پیداوار اور بازار میںفروخت کرنے سے وابستہ کئی دوسرے کردار بھی متحرک اور فعال ہیں۔ اس سلسلے میں حقانی نامی دہشت گرد نیٹ ورک کا نام رپورٹ میں خاص طور سے قابل ذکر ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے بچولیوں کے ایک بڑے نیٹ ورک کو تشکیل دے رکھا ہے ، کراچی نشین حاجی سلیم جن کے بارے میں دعویٰ کیاجارہاہے کہ وہ افغان منشیات کو مختلف راستوں سے ہندوستان سمگلنگ میں ملوث ہے کے افغانستان میںکم وبیش سارے ڈرگ مافیاز کے ساتھ روابطہ ہیں۔
ہندوستان میں حکام کا کہنا ہے کہ منشیات کے دھندہ کی وساطت سے جو سرمایہ حاصل کیا جارہا ہے اُس سرمایہ کو دہشت گردانہ سرگرمیوں اور انکی معاونت کیلئے استعمال کیاجارہاہے۔ اگر چہ رپورٹ کے مطابق طالبان نے منشیات پر دو سال قبل پابندی عائد کردی ہے اور تب سے ا ب تک ان کے دعویٰ کے مطابق ۸۳۴؍ لیبارٹریوں اور ۱۴؍ ہزار ہیکٹر اراضی پر پیدوار تباہ کردی ہے لیکن اس کے باوجود طالبان کو اس ٹریڈ سے معقول آمدنی حاصل ہورہی ہے ۔ فرح ، ہیرات اور نمروز علاقوں میںمنشیات کی پیداوار اور تیاریوں کی متعدد لیبارٹریاں موجود ہیں او رکام کررہی ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹ میں اور بھی کئی ایک انکشافات ہیں جو اس بات کی طرف واضح اشارہ کررہے ہیں کہ افغانستان کی ہمسایہ ریاستیں جب تک نہ افغانستان کی ترقی، ملک میںسرمایہ کاری ،سفارتی تعلقات اور باہم اشتراک کے حوالوں سے معاملات سے قدم پیچھے نہیں ہٹاتی، منشیات کی سمگلنگ اور خریدوفروخت کا خاتمہ نہیں ہوسکتا ۔ اگر دہلی مسلسل یہ موقف اور نظریہ رکھتی ہے اور اس پر اب کئی برسوں سے سختی کے ساتھ عمل پیرا بھی ہے کہ دہشت گردی، دراندازی اور دوسرے دُشمنانہ اقدامات کی سرپرستی اور معاونت کے ہوتے باہمی تعلق اور کاروبار کے حوالہ سے اشتراک عمل ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے تو کشمیر میںمنشیات اور دراندازی کے راستے امریکی اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان میںچھوڑ ے جدید ترین ہتھیاروں کی برآمدگی اور فورسز پر بڑھتے جارحانہ حملوں کے ہوتے طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کی سطح پر نظرثانی وقت کا اہم ترین تقاضہ بن جاتا ہے۔
یہ لوگ احسان فراموش ہیں،ناقابل اعتبار ہیں ، مادہ پرست ہیں اور کشمیرکی تاریخ کے حوالہ سے ماضی پر محض سرسری نگاہ ڈالی جائے تو یہ کاکڑ خان کی نسل کا ہی تسلسل نظرآرہے ہیں۔