ممنوعہ جماعت اسلامی کے کچھ صف اول کے لیڈر جو حالیہ ایام میں جیلوں سے باہر آئے ہیں نے ایک بار پھر یہ دعویٰ کیا ہے کہ آنیو الے الیکشن میں حصہ لینے کیلئے وہ تیار ہیں بشرطیکہ جماعت پر سے عائد پابندی ختم کردی جائے۔ یہ دعویٰ بھی کیاگیا بلکہ اعادہ کیاگیا کہ ’ہماری حکومت سے بات‘ ہورہی ہے قطع نظر اس کے کہ جماعت کی طرف سے اب تک کئی بار کئے گئے اس دعویٰ کی تردید یا تصدیق نئی دہلی یا سرینگر میں ایڈمنسٹریشن سے وابستہ کسی شعبے نے ابھی تک نہیں کی ہے۔
جماعت اسلامی پر پابندی اور متعلقہ ٹریبونل کی طرف سے حکومت کی طرف سے عائد پابندی کی توثیق کے پیچھے محرکات اور وجوہات کیا ہیںوہ محتاج وضاحت نہیں البتہ جماعت کے کچھ لیڈروں کی طرف سے الیکشن میدان میں کودنے اور کشمیرنشین کسی بھی سیاسی جماعت بشمول نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی وغیرہ کے ساتھ انتخابی گٹھ جوڑ کے کسی بھی امکان کو خارج از بحث قرار دیئے جانے کے تناظرمیں یہ واقعی حیران کن ہے کہ ’’حکومت سے رابطہ میں ہے اور الیکشن لڑ نے کیلئے تیار ہیں‘‘ کے جو دعویٰ ہورہے ہیں اُن میں کچھ نہ کچھ تو ہے جس کی فی الحال اور بادی النظرمیں بھی پردہ داری کی جارہی ہے۔
سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ اس سارے تناظرمیں اپنا ردعمل دیتے ہوئے واضح کرچکے ہیں کہ جماعت اسلامی پردے میںرہ کر پراکسی اُمیدواروں کیلئے میدان میں نہ کودے بلکہ اپنے دم پر اپنے اُمیدوار کھڑا کرکے الیکشن میں حصہ لے۔البتہ اپنی پارٹی کے سربراہ سید الطاف بخاری نے کچھ ماہ قبل بلکہ پارلیمانی الیکشن کی آمد آمد پر جماعت اسلامی ، حریت کانفرنس اور کچھ دوسرے علیحدگی پسند وں کیلئے اپنی پارٹی کے دروازے کھلے چھوڑنے کی بات کی اور ان کا خیرمقدم بھی کیا۔
بہرحال جماعت اسلامی کاکہنا ہے کہ اس نے ہر الیکشن میں حصہ لیا ، اپنے اُمیدوار کھڑے کئے جبکہ ایک مرحلہ پر وہ اسمبلی میںواحد بڑی اپوزیشن جماعت بھی رہی ہے۔ یہ سچ ہے البتہ کچھ زمینی اور تاریخی حقائق بھی ہیں جنہیں نظرانداز کرنا یا اب کسی نئی اور اندھی سیاسی مصلحت یا مجبوریوں کے پیش نظر حاشیہ پر رکھنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ بے شک جماعت نے اسمبلی کی دہلیز پہلی بار عبور کی لیکن قومی دھارے میںاپنی مکمل اور بھر پور شرکت نہیں کی اور نہ ہی اپنے جماعتی آئین میں اپنے سیاسی نظریات سے دستبرداری دی۔ اب تو کہا جارہا ہے کہ جماعتی آئین میں اس تعلق سے ترمیم کرکے اُس نظریاتی شق جس کا تعلق مخصوص سیاسی نظریہ ، سیاسی عقیدے اور سیاسی موقف سے ہے کو ہٹادیا جائے گا بشرطیکہ جماعت پر عائد پابندی کو ختم کردیاجائے لیکن سوال یہ ہے کہ بحیثیت کچھ عسکری تنظیموں کی سرپرست حمایتی اور آئیڈیولاگ ہونے کا جو رول اداکیا گیا ہے اور جس کے نتیجہ میں ہر سو تباہی وبربادی کا قہر برپاہوا جبکہ پارٹی کا یہی کردار اس پر پابندی عائد کئے جانے اور مختلف نوعیت کے اثاثوںاور املاک کی ضبطی کی بُنیاد بنی کیا اُس پر پارٹی کی قیادت کو کوئی افسوس ہے ، شرمندگی ہے اور کوئی پچھتاوا ہے۔ کیا عسکری تحریک کو ابتدائی ایام میں فساد قرار دینے اور پھر پارٹی اور مسلکی مصلحتوں باالخصوص کسی اور کے خاکوں میںرنگ بھرنے کیلئے گلے لگانے اور سرپرستی کرنے کے حوالہ سے اب کسی نئے جواز یا منطق کو تراشنے کی کوشش کی جائیگی یا اپنی سابق باالخصوص اُس مخصوص دور کی قیادت کو اس سب کیلئے براہ راست ذمہ دار ٹھہرانے کا اعلان کیاجائے گا؟
جمہوری سیٹ اپ میںہر شہری کو یہ حق بلکہ آئینی ضمانت بھی حاصل ہے کہ وہ الیکٹورل پراسیس میںشرکت کرے لیکن اس پر اسیس یا حصہ دار ی کی آڑ میں کسی طرح کی رخنہ اندازی کرے، آئین کے تقاضوںاورقومی دھارے سے وابستہ وسیع تر مفادات اورنظریات سے ہٹ کر اپنی مخصوص سیاسی سوچ کے تابع اپنی سرگرمیوں کو عیاں اور پوشیدہ طور سے آبیاری کرتا رہے یہ کسی بھی اعتبار سے قابل قبول نہیں۔ جماعت اگرچہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ اس کی جموںوکشمیرکے حوالہ سے اپنی مخصوص اور منفردحیثیت اورشناخت ہے لیکن وہ عوام کو کسی بھی مرحلہ پر مطمئن نہیں کرسکی کہ اس کا نظریاتی رشتہ اور تعلق ملک کی جماعت اسلامی، پاکستان کی جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی سے نہیں ہے۔ اس جماعت کے کچھ لیڈران جو سرحد کے اُس پار موجود ہیں ان کی تقریروں اور بیانات سے بھی اس کی تصدیق وتوثیق ہوتی رہی ہے۔
پھر الیکشن میںشرکت، جماعتی آئین میں سیاسی نظریہ کے حوالہ سے مخصوص شق اور عائد پابندیوں کو ہٹانے کے مطالبات بادی النظرمیں ہی قابل فہم محسوس نہیں ہورہے ہیں ۔ کیا یہ پیشکش کسی نئے سیاسی گٹھ جوڑ کی طرف اشارہ کررہاہے، کیا کشمیر کی سرزمین پر کسی نئے سیاسی فصل کی بوائی کا آغاز ہورہاہے، کیا وہ لوگ، ادارے اور کل پرزے جو اپنی آنکھوں سے اب تک کشمیرکی کم سے کم دو ، تین نسلوں کی بربادی اور کشمیر کو بہت سارے کھنڈرات میں تبدیل ہوتا دیکھ بھی چکے ہیں اور حالات واقعات کے چشم دید گواہ بھی ہیں کیلئے کیا یہ نیا نیا سیاسی گل باعث حیرانی وتعجب نہیں؟
بہرحال اگر کوئی ادارہ محض اپنی کسی شوق طبع کی خاطر کوئی کھیل کھیل رہا ہے یا کسی مہم جوئی کے تعلق سے اپنے لئے تسکین قلب تلاش کررہاہے تو اُس کے لئے یہ بھی لازم ہونا چاہئے کہ اس کھیل یا مہم جوئی کے ممکنہ منفی یا مثبت اثرات اور پہلوئوں کو بھی جمع خاطر رکھیں۔ کسی الیکشن میں اپنے لئے ناقابل قبول کسی چہرے کو شکست دینے کیلئے جن سیڑھیوں اور راستوں کا سہارا لیاجاسکتا ہے مد مقابل کیلئے وہ راستے اس کے اپنے اخلاقی حدود یاسیاسی اہداف کے تعلق سے جائز تو ہوسکتے ہیں لیکن مضمرات اور منفی نتائج کے حوالہ سے آنے والے ایام کیلئے تباہ کن بھی ثابت ہوسکتے ہیں ۔ ماضی قریب سرزمین کشمیراور اس کے اہل ان مضمرات کو دیکھ بھی چکے ہیں اور سہتے بھی چلے آرہے ہیں۔
اس تعلق سے بارہمولہ حلقے کا پارلیمانی الیکشن نتائج اور پیش آمدہ کچھ مخصوص معاملات کے حوالہ سے قابل ذکر ہیں۔ اس حلقے میںکیا کچھ ہوا وہ بدستور سنجیدہ اور غیر ذمہ دار حلقوں میںزیر بحث ہے۔ یہاں تک کہ اس حلقے سے کھڑے اُمیدوار بھی اب کھلے عام ان عوامل ، معاملات اور وجوہات کو زبان دے رہے ہیں جن سے یہ مخصوص پارلیمانی حلقہ گذرا۔ جو کچھ بھی اب کہاجارہا ہے یاجو کچھ بھی اب پردوں سے باہر آکر سامنے آرہا ہے اُس میں کچھ پیغامات اور واضح اشارے موجود ہیں جنہیں سمجھنے اور پرکھنے کی سرنو ضرورت ہے۔
سمجھو تو بہت کچھ ، نہ سمجھو تو کچھ بھی نہیں!
۔۔۔۔