جموںوکشمیرمیں پانچ پارلیمانی حلقوں میں ووٹ ڈالے جانے کامرحلہ اپنے اختتام تک پہنچنے کے ساتھ ہی اعلیٰ چنائو کمشنر نے مجوزہ اسمبلی انتخابات کے انعقاد سے متعلق اپنی تیاریوں کو ہاتھ میں لینے کا اعلان کردیا۔اگر چہ انہوںنے اس کیلئے کسی ٹائم فریم کی طرف اشارہ نہیں کیا البتہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے ۳۰؍ ستمبر تک انتخابی عمل مکمل کرنے کا واضح اعلان کرکے ان تمام قیاس آرائیوں اور اٹکلیوں کا خاتمہ کردیا جو انتخابات کے ہونے یانہ ہونے کے حوالہ سے مختلف عوامی اور سیاسی حلقوں میں اب ایک مدت سے ہورہی تھی۔
وزیرداخلہ کے اس ٹھوس اعلان کا خیر مقدم کیاجارہا ہے لیکن اس بات کو بھی محسوس کیاجارہاہے کہ جو اسمبلی انتخابات کے بل بوتے پر وجودمیں آجائیگی اُس کے پاس قانون سازی کا کوئی اختیار حاصل نہیںہوگا ماسوائے چند ایک امورات کے جبکہ اس کے نتیجہ میں جو حکومت تشکیل پاجائیگی اس کی حیثیت بھی لنگڑی ہی ہوگی بالکل اُسی طرح جس طرح دہلی کی کیجریوال حکومت، جس کو معمولی سے معمولی اقدامات اُٹھانے اورانہیں عملی جامہ پہنانے کیلئے لیفٹیننٹ گورنر سے منظور ی حاصل کرنے کیلئے رجوع کرنا پڑرہاہے کیونکہ تمام تر اختیارات گورنر کے ہاتھ میں ہیں۔ موجودہ یوٹی کی حیثیت کے ہوتے اب جو بھی حکومت وجود میں آتی ہے اس کے پاس کلاس چہارم پر تقرری تو دور کی بات اس کا تبادلہ کرنے کا بھی کوئی اختیار نہیںہوگا۔
البتہ یہ انتخابات اُسی صورت میں عوام کے لئے کسی حد تک فائدہ مند اور نتیجہ خیز ثابت ہوسکتے ہیں کہ جب جموںوکشمیرکا ریاستی درجہ بحال ہوگا جس کی بحالی کے تعلق سے مرکزی وزیرداخلہ نے جو اعلان کیا ہے وہ غور طلب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسمبلی الیکشن کے بعد ریاستی درجہ بحال کیاجائے گا، دوسرے الفاظ میںاسمبلی انتخابات کے بعد حکومت کی تشکیل تو ہوگی لیکن ریاستی درجہ واپس حاصل کرنے کیلئے جموںوکشمیر کے سیاسی و عوامی حلقوں کیلئے ایک اور لمبی جدوجہد کیلئے اپنے لنگر لنگوٹے کس کر میدان میں اُترنا پڑے گا۔ ریاستی درجہ کی واپس بحالی پھر کتنی مدت میں ممکن ہوپائیگی اس بارے میں فی الحال قطعیت کے ساتھ کچھ نہیںکہا جاسکتاہے۔
جموںوکشمیر کی سیاسی جماعتوں کا انداز سیاست، اپروچ اور بیانات کا بغور جائزہ لیاجاتا ہے تو اس بات کا تجزیہ کے طور یہ عندیہ ملتا ہے کہ ان سیاسی حلقوں کو اس بات کی پروا نہیں کہ وہ اقتدارمیںآکر بغیر اختیار کے حکومت کریں یا اختیارات سے لیس ہوکر وہ حصول اقتدار میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس حوالہ سے عوام سے وہ جو وعدے کررہے ہیں موجودہ صورتحال کے ہوتے ان کا ایفاء ممکن نہیںبلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ وعدے گمراہ کن اور طفل تسلی کی حد تک ہی ہیں۔
یہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں بلکہ ہر اعتبار سے توجہ طلب اور غور طلب ہے۔ مثلاً کوئی ایک پارٹی یہ مسلسل طور سے اعلان کررہی ہے کہ اننت ناگ …راجوری پر مشتمل جس پارلیمانی حلقہ کو وجود بخشا گیا ہے اس پارلیمانی حلقہ کو دو علیحدہ حلقوں میں وجود بخشنے کیلئے راستہ ہموارکیاجائے گا۔ یہ اعلان بھی کیا جارہاہے کہ سردیوں اور گرمیوں کے ایام کے دوران کشمیر اور جموں خطے کے عوام کو چھ چھ مہینوں کیلئے پانچ سو یونٹ اور پھر تین سو یونٹ بجلی مفت فراہم کی جائیگی۔ کیا یہ قابل عمل ہے؟کیا جموںوکشمیر کی مجموعی بجٹ اتنی حجم کی ہے کہ یہ سالانہ کروڑوں روپے کی مالیت کی مفت بجلی عوام کیلئے وقف کرسکے؟
کوئی دوسری جماعت عوام کو بار بار یہ یقین دلارہی ہے کہ اقتدار میںآنے کی صورت میں جموںوکشمیر کے پشتنی باشندوں کے زمین پر ملکیتی حقوق، سرکاری ملازمتوں میںسو فیصد ریزرویشن ایسے معاملات کو آئینی ضمانتوں کے حصار میںلایاجائیگا۔ روشنی نام کی سکیم کی بحالی کا بھی یقین دلایاجارہاہے۔ دوسری کئی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے بھی اسی طرز کی یقین دہانیوں کے اعلانات اب تک سامنے آچکے ہیں جبکہ کچھ ایک ریاست کے منفرد تشخص اور مخصوص شناخت کی بحالی کا بھی مژدہ سنایاجارہاہے۔ لیکن ابھی آج کی تاریخ تک ان میں سے کسی ایک جماعت نے بھی اختیارات اور فیصلہ سازی کے حوالہ سے معاملات کو زبان نہیں دی ہے۔ جو اس بات کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے کہ یہ ساری پارٹیاں اور ان کی قیادتیں کھوئے اقتدار کی واپسی چاہتی ہیں عوام کو بااختیار بنانے میںان کی کوئی دلچسپی ہے اور نہ وہ اس کی ضرورت سمجھتے ہیں۔
الیکشن کے ہی تعلق سے ایک اور پہلو اب کچھ دنوں سے سامنے لایاجارہا ہے ۔ مسلسل دعویٰ کیاجارہاہے کہ پارلیمانی الیکشن میں عوام نے ریکارڈ توڑ ووٹ ڈالے جو ان کے اندر جمہوری حقوق کی حصہ داری کے ایک نئے جذبے اور اُمنگ کو واضح کررہا ہے ۔ دفعہ ۳۷۰؍ کے خاتمہ کاہی یہ ثمرہ قراردیاجارہاہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا جارہاہے کہ اس کا سہرا چنائو کمیشن کو جاتاہے ۔ یہاں تک کہ وہ لوگ بھی ووٹ ڈالنے گھروں سے باہر نکل پڑے جو پاکستان کے حامی یا علیحدگی پسند نظریات کے علمبردار رہے ہیں۔
دعویٰ کرنا ایک بات ہے اور ان دعوئوں پر سینہ تان کر فخر کرنا دوسری بات ہے ۔ بہرحال اگرواقعی سچ یہی ہے اور اسی سچ کو مان بھی لیں تو پھر دیانتداری کا تقاضہ تویہ ہے کہ ان فراڈ الیکشنوں اور ان کی آڑمیں کامیاب قرار دیئے جاتے رہے لوگوں کے حوالہ سے یہ اعتراف کیا ضروری نہیں بنتا کہ وہ سارے الیکشن دھوکہ ، فراڈ اور اندھی سیاسی مصلحتوں کے مطیع رہے ہیں اور ماضی میںجو حکومتیں یہاں برسراقتدار رہی ہیں وہ میڈ اِن دہلی تھی۔ جبکہ حقیقت بھی یہی ہے ، وہ سارے انتخابات چنائو کمیشن ہی نے کرائے تھے، ان فراڈالیکشنوں کا کریڈٹ چنائو کمیشن کے سر کیوں نہیں!
کشمیر تو انہی سلب شدہ جمہوری اورآئینی حقوق کی بات گلہ شکوہ کے لب ولہجہ میں کرتا رہا ہے ، لیکن عوام کی ان شکوئوں کو کس نے اپنے کان دھرکر مداوا تلاش کرنے کی کوشش کی ؟