جمہوریت، آزادی تحریر وتقریر، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ نظریہ پر مبنی حکومتی اپروچ وغیرہ ایسے نظریات اور موقفوں کی دُنیا بھر میںکوئی کمی نہیں ہے۔ دُنیا کے نقشے پر نگاہ ڈالی جائے تو کئی ممالک ایسے بھی نظرآتے ہیں جو مسلسل طور سے دعویٰ تو جمہوریت اور جمہوری طرزحکمرانی کا کررہے ہیں لیکن ان کے یہ دعویٰ خود ان ممالک کی زمینی صورتحال سے مطابقت نہیں رکھتے اور نہ ان دعوئوں کا ذرہ بھر بھی عکس زمین پر کہیں دکھائی دے رہا ہے۔
اس حوالہ سے اگر اُس انڈیکس کا مطالعہ کیاجائے تو یہ حقیقت سامنے واضح طور سے اُبھر کر آجاتی ہے کہ حقیقی جمہوریت یا مکمل جمہوریت دُنیاکے محض چند ممالک تک ہی محدود ہے جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ ۳۵؍ ہے۔ اس انڈیکس کے مطابق ۱۷۶؍ ممالک میں سے ۴۵؍ ممالک ایسے ہیں جن کا شمار کم جمہوریت والے ممالک میںہوتا ہے جبکہ ۹۴؍ ممالک ایسے ہیں جن کا شمار مختلف زمروں میںہوتا ہے۔مثلاً ہائی برڈ جمہوریت، اعتدال پسند آمریت اور سخت گیرانہ آمریت۔ ہندوستان اور پاکستان کا شمار اس عالمی انڈیکس کے مطابق ہائی برڈ جمہوریت زمرے میں کیاجارہاہے جبکہ بنگلہ دیش کا شمار اعتدال پسند آمریت والے ممالک میںہوتا ہے۔
اتفاق سے بنگلہ دیش میںابھی چند ہی روز قبل عام انتخابات کے نتائج سامنے آئے، حکمران جماعت عوامی لیگ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی اور اقتدار پر اپنی گرفت کو مزید مستحکم اور مضبوط بنایا۔ بنگلہ دیش کی کم وبیش سبھی اپوزیشن پارٹیوں نے اس سے پہلے بھی اور اب کی بار بھی ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور حکمران جماعت پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کئے۔ البتہ ان انتخابات میںکچھ آزاد اُمیدواروں نے بھی میدان مار لیا ہے جن کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ انہیں حکمران جماعت کی درپردہ حمایت حاصل تھی یا حکمران جماعت نے عالمی سطح پر تنقید اور خفت سے بچنے کیلئے ان آزاد اُمیدواروں کو میدان میں جھونک دیا تھا۔
عوامی لیگ کی اس مسلسل کامیابی کے پیچھے اصل میں فوج کی پشت پناہی کا دعویٰ کیاجارہاہے ۔ بنگلہ دیش کی آرمی کے بارے میں کچھ عرصہ قبل یہ سنسنی خیز رپورٹ سامنے آئی تھی کہ کس طرح آرمی کے بعض جنرل بشمول بحریہ اور فضائیہ کے بعض سینئر ترین آفیسروں کے ساتھ مل کر کاروبار کررہے ہیں اور اپنے مفادات اور کاروبار کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے انہوںنے کس حکمت عملی کے ساتھ کم وبیش تمام سویلین اداروں ، پیداوار کے اعتبار سے سرکاری اداروں، بین الاقوامی سطح پر ملک کے کاروبار اور تجارتی تعلقات پر درپردہ عمل دخل اور تسلط قائم کررکھا ہے۔ فوج کی ان تمام سرگرمیوں کا فائدہ عوامی لیگ کو جہاں اقتدار پر گرفت مضبوط بنانے میں ہورہاہے وہیں مالی اعتبار سے بھی پارٹی کی لیڈر شپ کا فی حدتک مستفید ہورہی ہے۔
قطع نظر اس کے کہ بنگلہ دیش میںکون کیا کررہاہے اور ملک میں کس طرز کا حکمرانی نظام قائم ہے بنگلہ دیش کا دعویٰ ہے کہ وہ جمہوری ملک ہے جہاں جمہوریت کے نظام اور مزاج کے عین مطابق معاملات طے کئے جارہے ہیں جبکہ تحریر وتقریر کی آزادی ہی حاصل نہیں بلکہ اس آزادی کو یقینی بھی بنایاجارہاہے ۔لیکن یہ ایک دعویٰ ہے جو کسی بھی حوالہ سے ملک کی زمینی صورتحال سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ بڑی اپوزیشن جماعت کی خاتون سربراہ جو وزیراعظم کے عہدہ پر بھی فائز رہ چکی ہیں قید مسلسل کاٹ رہی ہے ۔ اردو بولنے والی آبادی کو دوسری شہریت کا درجہ دیاجارہاہے، کئی مذہبی جماعتوں پر پابندی عائد ہے۔اس کے باوجود ملکی قیادت دعویٰ کررہی ہے کہ وہ ملک کو جمہوریت کے راستے پرچلا رہی ہے۔
البتہ بنگلہ دیش کی معیشت کے بارے میں یہ بات بغیر کسی لگی لپٹی اور تعصب کے کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان سے علیحدگی کے بعد کے ان برسوں میں بحیثیت آزاد مملکت نے اقتصادی محاذ پر زبردست پیش رفت حاصل کرلی ہے اور اپنی اقتصادیات کو پاکستان کے برعکس کافی حدتک ایک مضبوط بُنیاد فراہم کرنے میںکامیابی حاصل کرلی ہے۔ اس کااعتراف پاکستانی میڈیا ،سوشل پلیٹ فورم، سیاسی حلقے اور پاکستان کے ماہرین اقتصادیات برملا طور سے کررہے ہیں۔
بنگلہ دیش کی اس حیثیت کو عالمی سطح پر تسلیم کیاجارہاہے۔ حالیہ انتخابات کے تناظرمیں امریکہ اور برطانیہ جو مکمل جمہوریت والے ممالک ہیں شمار کئے جارہے ہیں نے واشگاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ انتخابات جانبدار، غیر منصفانہ اور بغیر کسی شفافیت کے ہوئے ہیںلیکن اس حقیقت کے باوجود بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات برابرقائم رہیں گے۔ دوسرے الفاظ میں جوممالک خود کو مکمل جمہوریت والے ممالک کا دعویٰ کررہے ہیں وہ اپنے اس دائرہ اور زمرہ سے باہر آکر ان ممالک کے ساتھ ہر طرح کے مراسم بنائے رکھتے ہیں جو چاہئے اعتدال پسند آمر ہوں، سخت گیرانہ آمریت کا نظام رکھتے ہوں ، ملٹری ڈکٹیٹر شپ کے سائے میں ہوںیا ہائی برڈ نظام کے تحت زندگی گذار رہے ہوں۔
یہ ایک ایسااپروچ ہے جو خود جمہوریت کے لئے زبردست خطرہ بھی ہے اور چیلنج بھی۔ جب آمرانہ ذہنیت اور اپروچ کے حامل کسی حکمران کو یہ خطرہ نہیں کہ عالمی برادری کا ردعمل مخالفانہ نہیںیا رد قبولیت سے عبارت نہیں تو وہ کیوں جمہوری اور جمہوری طرز نظام کیلئے خود کو پریشانی میں مبتلا رکھے گا۔ دُنیا میں اس وقت بھی کئی ممالک ایسے ہیں جہاں فوجی جنرلوں نے سویلین کا تختہ اُلٹا کر اقتدار پر قبضہ کررکھا ہے ، ان میں میانمار،مصر ، درپردہ پاکستان اور بنگلہ دیش ، کئی افریقی ممالک خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ چین اور روس فوج کی چھائوں میںمکمل شخصی آمریت میںاپنے سفر پر گامزن ہیں۔
اس سارے تناظرمیں حساس حلقے باالخصوص جمہوری مزاج کے حامل افراد خود سے یہ سوال کررہیں کہ اب کتنے دنوں تک جمہوریت زندہ رہ سکتی ہے کیونکہ آہستہ آہستہ آمریت مختلف روپوں اور شکلوں میں غالب ہوتی جارہی ہے، یہ دوسری بات ہے کہ اس آمریت کو جمہوریت کا لبادہ پہنایا جارہا ہے یا جمہوریت کے دعوئوں اور نعروں کی آڑ میں درپردہ پروان چڑھایا جارہا ہے۔