ہمارا کشمیر ،تھا کبھی اب نہیں، وہ کشمیر کہیں کھو گیا ہے، چند ہفتے قبل بھی تقریباً اسی عنوان کے تحت مختلف معاملات کے حوالہ سے کچھ سنگین نوعیت کے امورات کی نشاندہی کی گئی تھی لیکن اب کی بار کچھ ایسے معاملات ، جو کچھ دنوں ہفتوں سے سامنے آرہے ہیں، جو ہوش بھی اُڑا رہے ہیں اور جو چونکا بھی رہے ہیں سامنے آرہے جن کا تعلق انحطاط پذیر اخلاقیات، کشمیرکی منفرد اور تاریخی روایات اور سماجی سطح پر قدروں کے تنزل سے ہے۔
کورپشن ، بدعنوانی، استحصال ، لوٹ کھسوٹ ، بددیانتی ،بے ایمانی ، خیانت ،منشیات کا بڑھتا کاروبار اور استعمال، جھوٹ ،مکاری، فریب کاری، ریاکاری، حقوق کی سلبی، بے حیائی کاطوفان، ناجائز منافع خوری اور کیا کچھ نہیں جواب میرے اور آپ کے اس کشمیر جسے کبھی کسی زمانے میں قدر ، قدرت اور حُسن شناسوں نے جنت بے نظیر کا تاج پہنا یا تھا، میں نہیں ہے۔
اخلاقی قدروں اور اعلیٰ وارفع روایات اور اصولوں کی بے قدری اور تنزلی کا یہ منظرنامہ دیکھ کر اب روح بھی چھلنی ہوتا جارہا ہے اور جذبات بھی قدرے بے قابو ہوتے جارہے ہیں۔ لیکن بے بسی کا عالم ہے، کوئی کسی کے سامنے خود کو جواب دہ نہیں سمجھتا۔ حاکم اپنی حاکمیت کے نشے میں خود بھی بدمست ہے اور اندھے گھوڑے پرسواراسے اپنے حقیر مفادات کے حصول اور اہداف کی تکمیل کی سمت میں سرپٹ دوڑاتا جارہاہے، کاروباری بغیر محنت کے دولت کا متلاشی ہے، کلرک سے آفیسر تک (سارے نہیں ) گھِس گھِس ازم کو اپنا ایمان اور نصب العین تصور کررہا ہے، مادہ پرستی کی دوڑ میں سبقت لے جانے کی کوشش میں کم وبیش ہر ایک اندھا بن چکا ہے، بندوق ، چھرا، آتشیں ہتھیار کااستعمال اپنے رقیب کا حساب برابر کرنے کیلئے اب روز کا معمول ہے، زندگی کے مختلف شعبوں میںمافیاز ،سمگلروں اور غنڈہ گردوں اور راہزنوں کا راج ہے اور بھی بہت کچھ ہے کس کس کا احاطہ کیا جائے۔
بچپن اور پھر لڑکپن ، اپنے زمانے کے قدآور سیاستدان شیخ محمدعبداللہ کی تقریر یں سننے کا جنون، پھر صحافت کی دُنیا میں قدم رکھ کر ان کی تقریروں کے اقتباسات کو صفحہ قرطاس پر بطور دوسروں کی آگہی کے لئے بکھیر نے کا عمل، ان تقریروں سے وابستہ کچھ یادیں، کچھ سبق آموز باتیں اور کلمات ، کچھ پیش گوئیاں یاداشت کے کسی نہ کسی خانے میں موجود ہیں جو کسی معاملہ یا واقعہ ، جو انہونی یا غیر متوقع ہی کیوں نہ ہو، کی طرف توجہ جاتی ہے تو ماضی کے کشمیر کی طرف توجہ بھی اور نگاہیں بھی مرکوز ہوکر رہ جاتی ہیں۔
مرحوم شیخ محمدعبداللہ عموماً اپنی تقریروں میں اپنے سامعین کو خبردار کرتے رہتے کہ ان عنصروں اور اداروں سے خبردار رہا کرو جو سرزمین کشمیر کو اپنے مذموم مقاصد اور مکروہ عزائم کی تکمیل کیلئے بطور لیبارٹری استعمال کرنے کی ٹوہ میں رہتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ عنصر اور ادارے کشمیر کو اپنے لئے ایک تجربہ گاہ سمجھ رہے ہیں اور وہ وقت دورنہیں جب ہماری بے احتیاطی ، غیر ذمہ دارانہ طرزعمل ، بے اعتنائی اور بے حسی ان تجربہ کرنے والوںکے حوصلوں اور عزائم کو پختگی عطاکرنے کا موجب بن سکتا ہے اور ہم بے بسی کے عالم میں دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔
آج کی تاریخ میں یہی ہورہاہے۔ ہماری انتظامیہ کے کچھ منتظمین اپنے عالم میںاتنے بدمست ہیں کہ ان کی ناک کے نیچے اور آنکھوں کے سامنے ایک شخص ڈاکٹر کا لبادہ اوڑھ کر لل دید اسپتال کے زنانہ وارڈ (لیبر روم ) میںخواتین مریضوں کا معائنہ کرتا جارہا ہے اور یہ سلسلہ تین روز تک بغیر کسی روک کے جاری رہتاہے اورپھرجب شور برپا ہوجاتا ہے تو ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے کسی کے کان میں یہ بات ڈالی جارہی ہے کہ شخص مذکورہ کے ذہنی توازن کا معائنہ کیاجارہاہے اور اس کے گھروالوںسے ریکارڈ طلب کیا جارہاہے۔
بے شک بیدار ہو کر اعلیٰ انتظامی سطح پر تحقیقات کا فرمان جاری کردیاگیا ہے اور ایک آفیسر کو بطور تحقیقاتی آفیسربھی تعینات کیاگیاہے لیکن بُنیادی سوال جو توجہ طلب بھی ہے اور تحقیقات طلب بھی ہے کس نے اس فراڈڈاکٹر کو ہسپتال میں پہلے گھسنے او رپھر لیبر روم جیسے بے حد حساس وارڈ میں تین روز تک بغیر پوچھ تاچھ کے کھلے بندوں دندناتے پھر نے کی اجازت دی۔ یہ ایک گھمبیر معاملہ ہے جس کے لئے ہسپتال کی موجودہ انتظامیہ ذمہ دار ہے۔
انتظامیہ سے ہی وابستہ ایک خاتون آفیسر سانبہ میںکئی مہینوں تک سیلز ٹیکس آفیسر کا لبادہ اوڑھ کر کاروباریوں کو دھمکا تی رہی۔ کو اپریٹو محکمہ میںتعینات اس آفیسر کوا س کے کئی ساتھیوں سمیت حراست میں لیاگیا لیکن عدلیہ کی رحم دلی نے ان کو ضمانت پر رہائی دے کر عزت کا مقام عطاکیا۔ گجرات سے آیا ایک فراڑی وزیراعظم کے دفتر سے خود کو بڑا آفیسر جتلا کر کئی بار کشمیر آتا ہے ، سرکاری مہمان بن جاتا ہے، سرکار سے بلٹ پروف گاڑی، سکیورٹی اور دوسری مراعات حاصل کرکے پورے کشمیر یہاں تک آرمی کے اگلے بے حد حساس نوعیت کے مورچوں تک رسائی بھی حاصل کرتا ہے ، جموں وکشمیر انتظامیہ کے مختلف شعبوں کی جانب سے گجرات کے اس فراڑی کی سرپرستی ہی نہیں کی جاتی ہے بلکہ کچھ آفیسر کو اپنی ترقیوں اور منافع بخش عہدوں پر تقرریوں تک کی سفارش کی درخواستیں بھی کرتے ہیں ۔ کچھ ماہ کی اسیری اور کشمیر سے گجرات اور واپسی کے دور وں کے بعد بالآخر اسے بھی ضمانت دی گئی ہے۔
جموں وکشمیر میںکنٹرول لائن کے اُس پار سے افغان طالبان کے مکمل اشتراک سے اور جموںوکشمیر کی کچھ ہمسایہ ریاستوں میںسرگرم مافیاز اور سمگلروں نے کشمیر کو منشیات کی ترسیل اور استمال کی ایک بڑی منڈی میں تبدیل کردیاہے۔ پارلیمنٹ میںرکھے گئے اعداد وشمارات کے مطابق زائد از تیرہ لاکھ نشہ کے عادی اب جموں وکشمیر کی آبادی کا حصہ ہیں، یہ دوسری بات ہے کہ ابھی صرف چند روز قبل ایک آفیسر نے کشمیر میں نشہ کے عادی افراد کی تعداد گھٹاکر ۶۷؍ ہزار بتائی۔ ایک مولوی صاحب کی واعظ کی ویڈیو یوٹیوب پر دستیاب ہے جو دعویٰ کررہے ہیں کہ کشمیر میںنشہ کی عادی عورتوں کی تعداد ہی ایک لاکھ ہے۔ وہ بی بی سی کی کسی رپورٹ کاحوالہ دیئے سنے جاسکتے ہیں۔
یہ معاملات تو چند ہیں جو بڑے پیمانے کے ہیں۔روزمرہ کی زندگیوں میںمعاملات کی بہتات ہے۔ کم سن بچے جنسی درندوں کے ہاتھوں ان کی حیوانیت اور درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں ، حالیہ ایام میں اس حوالہ سے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں، جائیداد اور دوسرے سماجی معاملات پر لڑائی جھگڑے یہاں تک چھرا زنی، مارپیٹ اور دھونس دھمکیوں کے معاملات بھی اب معمول بن رہے ہیں، جہیز سے وابستہ معاملات کو لے کر اختلافات اور طلاقیں اب کشمیر کے معاشرے میںگالی تصور نہیں کئے جارہے ہیں۔
غرض اخلاقیات اور اعلیٰ رواداری کا جنازہ نکالاجارہاہے اور کشمیر کا سماج اب تسلسل سے پیش آرہے ان واقعات پر شرمندہ ہیں اور نہ ہی ان کی گردن کا کوئی حصہ ایک طرف جھکا دکھائی دے رہا ہے ۔ جس تجربہ گاہ کی طرف تذکرہ کیاگیا ہے یہی وہ معاملات ہیں جو کشمیر کی اس تجربہ گاہ میں اب آئے روز کئے جارہے ہیں بلکہ اب جن کا معمول بن چکاہے۔ کون ہے جو اس انحطاط کو روکے ،غالباً کوئی نہیں، سیاسی قیادت کی بات کریں تو وہ اپنے اپنے نظریات کی سیاست میں ہی بدمست اور اُلجھے ہوئے ہیں، مذہبی قیادت کی بات کی جائے تو مساجد اور خانقاہوں میں واعظ وتبلیغ تو کررہے ہیں لیکن سماجی بدعات، رسومات، بری عادتوں اور انحطاط پذیر روایتوں اور اقدار کی تنزلی اور پامالیوں پر انہیں بات کرنے کی عادت نہیں البتہ یہ حضرات منبروں پر بیٹھ کر چیخنے اور چلانے میں ضرور ید طولیٰ رکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہی ہے جو رحم کرنے والا ہے اور کوئی نہیں !!