جموں وکشمیر میں روزانہ اوسطاًتقریباً ۱۸؍ سڑک حادثوں میں تقریباً تین افراد لقمہ اجل جبکہ درجوں زخمی ہورہے ہیں۔گذشتہ دس سال کے دوران جموں وکشمیر کے طول وارض میں جو سڑک حادثے رونما ہوئے ان کی اوسط انہی اعداد وشمارات کی طرف اشارہ کررہی ہے۔یہ اعداد وشمارات ہر حساس اور ذمہ دار شہری کے لئے فکر مندی کا موجب ہیں۔
ایک طرف بندوقوں کی بھرمار، مختلف امراض میں مبتلا افراد، منشیات کی لت میں مبتلا افراد، خودکشی کے بڑھتے واقعات وغیرہ معاملوں اور پریشانیوں سے عاجزی کے نتیجہ میں ہلاکتوں کا بڑھتا گراف تودوسری جانب بڑھتے سڑک حادثات میں شہریوں کی ہلاکتیںسنگین نوعیت کی پریشانیوں اور تکالیف کا موجب ہیں۔
دُنیا کا وہ کوئی حصہ یا علاقہ نہیں جہاں سڑک حادثات پیش نہیں آتے اورقیمتی انسانی زندگیاں تلف نہیں ہوتی جبکہ حادثات میں جسمانی طور زخمی اور متاثرہ افراد کی ایک ایسی تعداد بھی ہے جو عمر بھر کیلئے معذور بھی ہوجاتی ہے۔حادثات کی مختلف وجوہات ہیں جن کا تعلق مقامی طور پردستیاب سڑکوں کی حالت، گاڑیوں کی ہیت، ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے لوگوں کی جسمانی، نفسیاتی اور اعصابی کیفیت اور مزاج کا عمل دخل، ٹریفک مینجمنٹ اور اس سے وابستہ اہلکاروں کی قابلیت اور صلاحیت،، جبکہ راہ گیروں کی عمومی عادات اور پیدل چلتے وقت ان کی ترجیحات اور نفسیات کا بھی بہت بڑا عمل دخل مانا جارہاہے۔
جموں وکشمیر کا اس حوالہ سے منظرنامہ کوئی اطمینان بخش نہیں بلکہ مایوس کن ہے ۔ یہ سارا ٹریفک نظام سالہاسال گذرنے اور مینجمنٹ میں جدیدیت لانے کے بلند وبانگ دعوئوں کے باوجود فرسودہ اور روایتوں سے ہی عبارت نظر بھی آرہا ہے اور قید بھی محسوس کیاجارہاہے۔
شہروں کے حدود میںمروج ٹریفک نظام پر محض ایک سرسری نظرڈالنے سے بیک وقت جہاں کئی لوپ ہولز مشاہدہ میں آتے ہیں وہیں ٹریفک مینجمنٹ کے نام پر یا اس کی آڑ میں ٹریفک کی نقل وحرکت کے تعلق سے جس بے ہودگی اور طفلانگی کا بھونڈا مظاہرہ اب روز کا معمول بن چکا ہے اس پر ماتم کرنے کو جی چاہتاہے۔ کبھی ادھر کا ٹ تو کبھی اُدھرگھمائو، جس کراسنگ پر بہتر نظم وضبط کو بڑی آسانی کیسا تھ متعارف کرکے عملی جامہ پہنایاجاسکتا ہے عمل اس کے برعکس یہ ہے کہ ٹرن لینے کیلئے ایک کلومیٹر کی دوری کو اس فرسودہ ٹریفک نظام کا لازمی حصہ بنایا جارہاہے۔ سرینگر شہر کی اکثر وبیشتر سڑکوں کا یہی منظرنامہ ہے۔ پیٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں کے تناظرمیں ٹریفک کی نقل وحرکت کا یہ نرالا نظام ایک ایسا بوجھ ثابت ہورہاہے جو اب اوسط شہریوں کیلئے ناقابل برداشت بنتا جارہاہے۔ اگر چہ ٹریفک سے وابستہ اہلکار اس ٹریفک نظام کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مختلف آرائیں اور دلیلیں یا جواز پیش کررہے ہیں لیکن اوسط شہری ان کی ان دلیلوں سے متفق نہیں۔
بہرحال ٹریفک حادثات میں اضافہ کی جووجوہات ہیںوہ محتاج وضاحت نہیں۔ البتہ شاہرائوں کی ناگفت بہ حالت، دہائیوں پرانی گاڑیوں کومختلف روٹوں پر چلنے کی اجازت، اور لوڈنگ کا طوفان، نشہ کی حالت میں ڈرائیونگ ، تیز رفتاری کا پاگل پن اور جنون سڑک حادثات کی اہم ترین اور بُنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔ بے شک سڑک حادثات کے رونما ہونے پر کچھ سیاسی اور غیر سیاسی حلقے اظہار افسوس کرتے رہتے ہیں جبکہ کچھ حادثوں کے تعلق سے متاثرین کو معاوضہ بھی اداکرتے ہیں لیکن اظہار ہمدردی اور معاوضہ کی ادائیگی سے بُنیادی مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس مسئلہ کا دیرپا حل تلاش کرنے کیلئے ضلع سطح پر ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ جس جامع منصوبہ میں سڑکوں کی نشاندہی کرکے مرحلہ وار ان کی کشادگی اور حالت بہتر بنانے کی طرف خصوصی توجہ مبذول کرنی ہوگی۔ ضلع سطح پر ہی ٹریفکف مینجمنٹ کو از سر نو تشکیل دے کر اس نظام کو مرکزیت کے خول سے آزاد کرکے ہی ٹریفک کی نقل وحرکت پر قریب سے نگاہ رکھنے اور مانیٹر کرکے حادثات کی شدت کو کم کیاجاسکتاہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ ٹریفک کی نقل وحرکت میں بہت ساری خامیاں بھی موجود ہیں اور ہر گذرتے روز نت نئی خامیاں بھی جگہ پاتی جارہی ہیں لیکن ان خامیوں کو دورکرنے کیلئے کوئی نہ کرئی طریقہ کار بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ ساری ذمہ داری کا بوجھ ٹریفک اہلکاروں کے کاندھوں پر نہیں ڈالا جاسکتا ہے، ایسا کرنا ان کے ساتھ زیادتی ہوگی، لوگ چاہئے پیدل راہگیر ہیں یا گاڑیاں چلا رہے ہیں کی بھی کچھ شہری اور اخلاقی ذمہ داریاں ہیں، یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ یہ ذمہ داریاں نہیں اُٹھائی جارہی ہیں۔
اس حوالہ سے جموںوکشمیر کی چند بڑی اور شہ رگ کی حیثیت رکھنے والی شاہرائوں پر ٹریفک کی نقل وحرکت کا حوالہ بطور مثال دیا جاسکتاہے۔ ٹریفک معمول کے مطابق چلتا رہے اور کوئی بریک ڈائون نہ ہونے پائے، بار بار تاکید کی جارہی ہے کہ ایک لائن اختیار کی جائے تاکہ مخالف سمت سے آرہا ٹریفک اسانی سے گذرجائے ،لیکن کون اس پر عمل کررہاہے۔ ۱۵۔۲۰؍فٹ چوڑی سڑک کو چارلین میںتبدیل کیاجارہاہے، ظاہر ہے اس صورت میںکون ساٹریفک معمول کے مطابق نقل وحرکت میںرہے۔ اس مزاج جو اب نفسیات کا حصہ بن چکا ہے پر قابو پاکر ختم کرنے کی ضرورت بھی ہے اور اس کو ختم کرنے کیلئے سخت رویہ اختیار کرنا بھی لازمی ہونا چاہئے۔
حالیہ کچھ برسوں میں ایک نئی وباء بھی اُبھرتی بلکہ تیزی سے پھیلتی نظرآرہی ہے۔ موٹر سائیکل سوار جس تیز رفتاری کا مظاہرہ کرکے اپنے بھر پور کرتبوں کے ساتھ دندناتے نظرآرہے ہیں ان کا یہ نیا نیا جنون جو کسی پاگل پن سے کم نہیں جان لیوا بن رہاہے۔ ٹریفک کے بیچوں بیچ اس کرتب بازی کودیکھ کر جسم سے روح نکلتی محسوس ہورہی ہے۔ نہ جانے یہ پاگل پن اور جنون کہاں سے آکر موٹر سائیکل سواروں کے جسموں میں سرائیت کرکے دل ودماغ پر قابض ہوچکا ہے۔ اس پاگل پن کے مرتکب سواروں کی نشاندہی ناممکن نہیں، موزوں یہ ہے کہ ان کی رجسٹریشن منسوخ کردی جائے۔یہ اقدام بحیثیت مجموعی ان کے گھروالوں اور پورے سماج کیلئے کسی ناگواری کا باعث نہیں ہوگا۔