امریکہ کے ڈونالڈ ٹرمپ کے دور کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے دعویٰ کیا ہے کہ ہندوستا ن کی طرف سے پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائیک کے بعد فضا میں لڑائی کے دوران جہازوں کے مار گرائے جانے کے دعوئوں کے تناظرمیں دونوں ملکوں کے درمیان زبردست تنائو پیدا ہوگیا یہاں تک کہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال کرنے تک پہنچ گئے لیکن امریکہ نے بروقت مداخلت کرکے اس ہلاکت خیز ی اور تباہی کو روک دیا۔
کیسے مداخلت کی اور کس طریقے سے دونوں ملکوں کو اس راستے پر گامزن ہونے سے روکنے میں کامیابی حاصل کی سابق وزیرخارجہ نے اس حوالہ سے اپنی آنے والی تصنیف’’ نیور گیو این انچ……‘‘ میں تفصیلات پیش کی ہیں۔ اس کتاب میں مذکورہ نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اُس دورکی ہندوستان کی خاتون وزیرخارجہ سشما سوراج کو ہم (امریکہ) کوئی قدآور اور اہم سیاسی شخصیت کے طور تصور نہیں کرتے (ہندوستان کی خاجہ پالیسی کے حوالہ سے )۔
ہندوستان کے موجودہ وزیرخارجہ ایس جے شنکر نے سابق امریکی وزیرخارجہ کے ریمارکس کو اختراعی قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔ جے شنکر کا ترکی بہ ترکی کے انداز میں جوابی ردعمل غیر متوقع نہیں، لیکن ہندوستان میں تعینات اُس دور کے پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط کا ردعمل سامنے آیا ہے جو غیر متوقع ہے۔ باسط نے امریکی وزیرخارجہ کے بیان کو تضحیک کے ساتھ یہ کہکر مسترد کردیا ہے کہ اس نوعیت کے دعویٰ سابق عہدیدار اور حکومتی ذمہ دار عہدوں پرفائز اپنی شخصیت کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کی تصانیف مارکیٹ میں ہاتھوں ہاتھ بک جائیں۔
باسط نے آ نجہانی سشما سوراج کو ہندوستان کی ایک بااثر اور معتبر خاتون سیاستدان ، عظیم قوم پرست اور عظیم پارلیمنٹرین قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق پومپیو نے اس نوعیت کے (کھوکھلے اور بے بُنیاد) دعویٰ کرکے دراصل خود کو بے نقاب کردیا ہے۔ جہاں تک ہندوستان اور پاکستان کے سرجیکل سٹرائیک کے ردعمل میں پیدا تنائو کے تناظرمیں جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال کو بروقت مداخلت کرکے روکنے میںکامیابی حاصل کرنے کے پومپیو کے دعویٰ کا تعلق ہے عبدالباسط کا کہنا ہے کہ اس دعویٰ پر یقین کرنا بہت مشکل ہے۔
ہندوستان اور پاکستان حالیہ برسوں میں اس انتہا تک کسی مرحلہ میں داخل ہوئے ہیںاب تک اس حوالہ سے کوئی معتبر یا مصدقہ شہادت سامنے نہیں آئی ہے اور نہ ہی دونوں میں سے کسی ملک کے کسی معتبر یا آزاد ذرائع نے تب سے اب تک ایسی کوئی بات کی ہے۔ بے شک دونوں ملکوں کے درمیان بے حد کشیدگی رہی لیکن یہ کشیدگی جموں وکشمیر میں حد متارکہ پر جنگ بندی اور پھر اس جنگ بندی کو کامیاب بنانے سے اس میں کمی آتی گئی۔ البتہ یہ درست ہے کہ پاکستان نے ہندوستان کے جس پائلٹ کو اس کا جہاز مار گرائے جانے کے بعد گرفتار کرلیاتھا ہندوستان میں اس معاملے کو لے کر فکر مندی اور تشویش کی لہر دوڑ گئی تاہم یہ عارضی ثابت ہوئی کیونکہ تصدیق شدہ اطلاعات یہ ہیں کہ امریکہ نے اُس گرفتار پائلٹ کی رہائی کے لئے مداخلت کی او رپاکستان کی اُس وقت کی عمران حکومت نے پائلٹ کی فوری واپسی کا فیصلہ کرلیا۔
امریکہ کی مداخلت کے حوالہ سے یہ بھی سو فیصد تصدیق شدہ درست ہے کہ ۱۹۹۹ء (کرگل) واقعہ کے تعلق سے صورتحال کو قابو کرلیاگیا لیکن اس وقت جب نواز شریف نے خودمداخلت کی اور اپنے جنرل مشرف کی حماقت اور مہم جوئی کا اعتراف کیا۔ امریکی مداخلت کے نتیجہ میں پاکستان نے کرگل کی چوٹیوں سے اپنی فوج واپس ہٹالی۔
بہرحال کتابیں لکھی جاتی رہی ہیں اور لکھنے والے کبھی سچ بھی منظرعام پر لاتے ہیں اور جھوٹ کا بھی سہارا لیتے رہے ہیں۔ حالات واقعات کو ان کے سیاق وسباق سے ہٹ کر اور توڑ مروڑ کر پیش بھی کیاجاتا ہے ۔ اس بارے میں بہت ساری کتابوں اور ان کے منصفین کے بارے میں حقائق سامنے آتے رہے ہیں۔ یہ سب کچھ کتابوں کی بکری یقینی بنانے کیلئے کیاجارہاہے۔ البتہ یہ بات بھی نوٹ کی جاتی رہی ہے کہ اگر کسی نے سچ کا سہارا لے کر حالات واقعات کو انہی سے مخصوص انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے تو مخاطب کی مرچیں لگ گئی ، اس کاچین وسُکھ بھی چھن گیا اور اپنی خفت مٹانے کیلئے وہ ردعمل میں جھوٹ پر مبنی دفاع کا سہارا لیتا رہا۔ اس نوعیت کے معاملات جنگوں، سیاسی امورات، پالیسی فیصلوں اور ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے حوالوں سے منسوب سامنے آتے رہے ہیں۔
سابق امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کی کتاب کو بھی ان ہی میں سے کسی ایک زمرے میں رکھ کر شمار کیاجاسکتا ہے۔ ویسے بھی ٹرمپ کا دور کا امریکہ خود امریکہ اور اس کے عوام کیلئے کسی دردناک اور شرمناک عذاب سے کم نہیں رہا۔ سفید نسل پرستی کی سرپرستی بھی کی، جمہوریت کو ناقابل تلافی حد تک نقصانات سے بھی ہم کنار کیا، تحریر وتقریر کی آزادی پر متواتر حملے ہوتے رہے، ڈکٹیٹر شپ کا ایک نیا روپ متعارف کرایا، جبکہ وائٹ ہائوس سے اپنی شکست کے بعد جاتے جاتے اپنے حامیوں کو ہائوس آف کانگریس پر حملہ آور ہونے کیلئے اُکسانے کا مجرمانہ فعل اور کردار شک وشبہ سے بالا تر ہے۔ اس پس منظرمیں اُس دور اور اُس مخصوص ذہنیت کی حامل ایڈمنسٹریشن کے ایک وزیر کے اس نوعیت کے دعویٰ اور ایک ملک کی خاتون وزیرخارجہ کے تعلق سے ریمارکس درحقیقت اُسی فسطائیت اور فسطائی ذہنیت کا عکاس ہیں۔
امریکہ اور اس کی حکومت چاہئے آج کی ہے یا ماضی کی کوئی رہی، ملکوں کے ساتھ دوستی کی آڑمیں دراصل اپنے مفادات کو پیش نظررکھتے ہوئے تعلقات کوآگے بڑھانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ یہ ہتھیاروں کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ ہتھیاروں کی فروخت اس کی داخلی اور خارجی پالیسیوں سے وابستہ ہے۔ سازشوں کا تانا بانا بننا اس کی فطرت ہے۔ امریکہ کے سازشازنہ کردار کو عالمی سطح پر اسرائیل، ایران اور فلسطین کے حوالہ سے ، عراق ، شام، مڈل ایسٹ یہاں تک کہ ہندوستان اور پاکستان کے تناظرمیں بار بار مشاہدہ میں آتا رہاہے۔ یہ کسی کا مخلص نہیں لیکن مخلص جتلانے کا ڈھونگ ضرور اختیار کرتا ہے۔
سابق وزیرخارجہ نے اپنی اس کتاب میں دوسروں کے حوالہ جات دینے کے بجائے اگر اپنی کتاب کے عنوان… امریکہ فسٹ … کے تناظرمیں اپنے ملک کی ان خامیوں او رملکوں کے تئیں اپنے سازشانہ کردار کے بارے میں حقائق ضبط تحریر میں لانے کو ترجیح دی ہوتی تو عالمی سطح پر کتاب کی کروڑوں جلدیں محض ۲۴؍ گھنٹوں کے اندر اندر نجی لائبریریوں کی زینت بن جاتی۔