سرینگر//
صاف و شفاف ماحولیات اور اعضا عطیہ کرنے کے پیغام کو عام کرنے کیلئے کیرلہ سے تعلق رکھنے والے دو میکنیکل انجینئرنگ طالب علموں کو سائیکلوں پر کشمیر پہنچنے میں قریب ایک ماہ کا وقت لگ گیا۔
۲۴سالہ جگدیش اور۲۶سالہ شرندی سیٹی۳۵سو کلو میٹروں کی طویل مسافت سائیکلوں پر طے کرنے کے بعدبدھ کو سیاحتی مقام گلمرگ پہنچ گئے ۔
سائیکل سواروںنے یہ سفر کرناٹک سے شروع کیا اور وہ یہ مہم ’گو گرین بفور گرین گوز‘ اور’ لائف از گفٹ پاس اٹ آن‘ کے نعروں کے تحت چلا رہے ہیں۔
دونوں انجینئرز جو ’ایشین پینٹز‘ کے ساتھ کام کر رہے ، ایک غیر سرکاری تنظیم ’سینٹر فار انٹگریٹڈ لرننگ‘اور دوسری عالمی سطح کی غیر سرکاری تنظیموں کے خرچے پر یہ مہم چلا رہے ہیں۔
جگدیش نے یو این آئی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا’’چونکہ ہم جنوبی بھارت سے تعلق رکھتے ہیں لہذا ہمیں یہاں تک سفر کرنے کے دوران مختلف مزاجوں کے موسم کا سامنا کرنا پڑا اور کرناٹک سے یہاں تک آنے کیلئے ہمیں آٹھ ریاستوں سے گذرنا پڑا‘‘۔انہوں نے کہا’’جب ہم نے سفر شروع کیا تو بارش ہو رہی تھی اور ہم آگے بڑھتے گئے تو گرم موسم نے ہمارا استقبال کیا’’۔
جگدیش کا کہنا تھا کہ سرینگر پہنچیں تو پہلی بار اس قدر شدید سردی دیکھی اور گلمرگ میں ہم پہلی بار برف باری سے لطف اندوز ہوئے ۔
انجینئر نے کشمیر کی قدرتی خوبصورتی کی تعریفیں کرتے ہوئے کہا’’کشمیر انتہائی خوبصورت جگہ ہے جس کو سبزہ زار کی ایک چادر نے پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ‘‘۔انہوں نے کہا’’یہ ہماری توقعات سے بھی زیادہ خوبصورت ہے اور یہ ’گو گرین بفور گرین گوز’کے تصور اور پیغام کو عام کرنے کیلئے سب سے بہترین جگہ ہے ‘‘۔
ان کا کہنا تھا’’ہم اس سے پہلے گجرات اور راجستھان بھی گئے وہاں بھی سبزار زار ہیں لیکن یہاں بات ہی کچھ الگ ہے یہاں ہر سو سبزہ ہی سبزہ ہے ‘‘۔
جگدیش نے کہا کہ ہم پہلی بار کشمیر آئے ہیں اور سال گذشتہ ہم نے سائیکلوں پر منالی، لداخ اور کھاردنگلہ پاس کا سفر کیا۔
کشمیریوں کے نام اپنے پیغام میں انہوں نے کہا’’کشمیریوں کیلئے ہمارا بس یہی پیغام ہے کہ اس سبزہ زار کو کسی بھی قیمت پر بر قرار رکھیں اور اعضا عطیہ دینے کے تصور کو بھی اختیار کریں‘‘۔
جگدیش نے کہا کہ اعضا عطیہ کرنے کے متعلق بیشتر لوگ بے خبر ہیں لوگوں کو چاہئے کہ کسی کی زندگی بچانے کیلئے اعضا عطیہ کریں۔انہوں نے ان تمام لوگوں اور غیر سرکاری تنظیموں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان کا یہ سفر پایہ تکیمل تک پہنچانے میں درمے یا سخنے ان کو مدد فراہم کی۔
ان کا کہنا تھا’’ہمارے ملک میں مختلف مذہبوں، ثقافتوں اور زبانوں کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں‘‘۔انہوںنے کہا کہ ہمارا ملک بہت ہی خوبصورت ملک ہے کیونکہ سفر کے دوران ہم مختلف لوگوں سے ملے جنہوں نے ہمیں ہر ممکن مدد فراہم کرنے میں کوئی گریز نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ دوران سفر ہم اجنبیوں سے ملے جن سے ہم نے دلچسپ کہانیاں سنی جو ہمارے ذہنوں میں ہمیشہ محفوظ رہیں گی۔
جگدیش کا کہنا تھا کہ ہم ملک کی آٹھ مختلف ریاستوں کے کلچر، کھانے پینے اور دیگر چیزوں سے واقف ہوئے جو ایک اچھا تجربہ تھا۔انہوں نے کہا کہ اس سفر یہ خوبصورت یادیں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی۔