شعبہ صحت عامہ کی کوئی کل سیدھی ہوتی تو اطمینان کی سانس لی جاتی لیکن بار بار کی نشاندہی کے باوجود نہ لغزشوں اور نہ ہی کوتائیوں اور کمزوریوں پر قابو پانے کی سمت میں کسی ذمہ دارانہ طرزعمل یاسنجیدگی سے کام لیاجارہاہے۔ بحیثیت مجموعی جموں وکشمیرمیں دوسرے کئی اہم شعبوں کی طرح صحت عامہ کے تعلق سے ہر ایک شعبے کو ایک منظم تجارت میں بدل دیاگیا ہے اور ہر جائز اور ناجائز طریقے سے دولت بٹورنا اوڑھنا بچھونا بن چکا ہے۔
پرائیوٹ سیکٹرمیں قائم چھوٹے بڑے ہسپتال، نرسنگ ہیوم، کلنک ، لیبارٹریاں وغیرہ اس حوالہ سے جس راہ پر گامزن ہیں اور سرمایہ بٹورنے کیلئے جو ذرائع اور طریقے بروئے کار لائے جارہے ہیں وہ اس سوال کو بار بار زبان پر لانے کا موجب بن رہے ہیں کہ کیا لائسنسوں کے اجراء کے بعد ان اداروں کی نگرانی اور محاسبہ ضروری نہیں؟ عوام کو اس پر اعتراض نہیں کہ مختلف شعبوں سے وابستہ ہنر مند اور غیر ہند مند سرکاری ملازمین اپنے فالتو وقت میںان نجی اداروں میں خدمات کے عوض اپنے اہل کیلئے روزی روٹی کے حصول کو مستحکم بنارہے ہیں بلکہ یہ ہے کہ سرکاری اوقات کار کے دوران بیماروں کے تئیں ان کا رویہ اخلاقی اور مناسب کیوں نہیں؟
ابھی چند روز قبل سرینگر کے ایک پرائیوٹ نرسنگ ہیوم؍ہسپتال کا آپریشن تھیٹر تابہ تحقیقات ڈاکٹروں اور عملے کی مبینہ غفلت شعاری کی پاداش میں سربہ مہر کردیاگیا ہے۔یہ ایک اچھا فیصلہ ہے لیکن اس ہسپتال میںاس مخصوص واقعہ سے قبل اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ بھی پیش آیا تھا لیکن واقعہ یا غفلت اور غیر ذمہ داری کی نشاندہی کے باوجود محکمہ صحت عامہ کے ناظم یاکسی دوسری ذمہ دار اتھارٹی نے ا س کا کوئی نوٹس نہیں لیا، اگر بروقت لی ہوتی تو ظاہر ہے دوسرا دلخراش واقعہ پیش نہ آتا۔اب پوچھا جاسکتا ہے کہ غفلت اور غیر ذمہ دارانہ طرزعمل پر آنکھیں چرانے کی غفلت کاذمہ دار کون ہے، محکمہ صحت عامہ کا ناظم کیوں نہیں؟
شعبہ صحت کے تعلق سے دو اہم شعبے …ناظم صحت اور ڈرگ اتھارٹی کئی اہم ترین معاملات کے حوالہ سے عوام کی توجہ کا مرکز بنے ہیں۔ ایک مدت سے لوگ چلارہے ہیں کہ مارکیٹ میں غیر موثر اور دونمبر کی ادویات کی بہتات ہے۔ ادویات کے کاروبار سے وابستہ کاروباریوں کی اچھی خاصی تعداد اس دونمبری کاروبار یا دکانداری سے وابستہ ہے۔ ریکارڈ گوا ہ ہے کہ آج تک کسی ایک بھی سٹاکسٹ ، دوافروش یا کاروباری کو اس تعلق سے گرفت میں نہیں لایاگیا، حوصلہ پاکر یہ کاروبارروز بروز شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہی ہوتا جارہاہے جبکہ اس ناجائز کاروبار کے بال وپر ہر سمت میں پھیلتے جارہے ہیں۔
ڈرگ اتھارٹیز کا اس تعلق سے کیوں کوئی ذمہ دارانہ رول نہیں ، اگر ہے تو عوا م کو بتایا جائے کہ اب تک اس پھیلتی وباء پر کشمیرمیں قابو پانے کی سمت میں کون سے تادیبی اور تدارکی اقدامات کئے گئے ہیں۔ ابھی ملکی سطح پر گذشتہ ۲،۳ ماہ کے دوران متعلقہ ڈرگ اداروں نے ایک سو سے زائد ادویات کی اقسام اور ویکسین کو غیر موثر ، غیر فعال اور مقرہ میعارات کے مطابق نہ پاکر عوام کو بھی جانکاری دی اور متعلقہ دو ا ساز کمپنیوں کے خلاف بھی کارروائیاں عمل میںلائی۔اس تعلق سے گلین اور سن فارما نامی دو سرکردہ دوا ساز کمپنیوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔ انہی کمپنیوں کے یہ ادویات یا ویکسین کشمیرکے بازاروں میںبھی دستیاب ہیں لیکن ڈرگ اتھارٹیز نے عوا م کو اس بارے میں کوئی جانکاری نہیںدی اور نہ ہی مارکیٹ میں دستیاب غیرموثر اور غیر معیاری قرار دی گئی ادویات کو ہی ضبط کرنے کی کوئی پہل کی۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ کیوں؟
پرائیوٹ سیکٹر میں قائم لیباریٹریوں؍کلنکوںاور تجزیاتی مراکز کی طر ف سے مختلف خدمات کے لئے جو چارجز وصول کئے جارہے ہیں ان میں نہ یکسانیت ہے اور نہ معقولیت ، جس کو جو جی میں آتا ہے چارجز وصول کرلیتاہے۔ اس حوالہ سے لوٹ اور استحصال کی انتہا ہے۔ حکومت اگر نجی سیکٹرمیں قائم تعلیمی اداروں کیلئے فیس کی شرخوں میںمعقولیت اور یکسانیت کی خواہاں ہے اور اس فیس کی شرحیں مقرر کرنے کیلئے اعلیٰ اختیار والی کمیٹی بھی قائم کی ہے تو کیا وجہ ہے کہ اربوں روپے مالیت کے نجی صحت اداروں اور ہسپتالوں کیلئے شرحیں مقرر کرنے کیلئے کوئی بااختیار کمیٹی کی تشکیل کو لازمی نہیں تصور کیاجارہاہے۔ کیا یہ محکمہ صحت کی اخلاقی اور قانونی ذمہد اری نہیں کہ وہ اس تعلق سے پہل کرے؟ عدم پہل کی آخر کوئی وجہ تو ہوگی۔ کیااس عدم پہل کی وجہ نذرانوں اور تحائف سے ہے یا شراکت داری سے ؟
ان کو تاہیوں یا حوصلہ افزائی کی حامل وجوہات کا محور اور بُنیادی مرکز مروجہ قوانین، ضوابط اور طریقہ کار ہے۔مثلاً مختلف دوا ساز کمپنیوں کے ایجنٹ سرکاری ہسپتالوں اور نجی صحت مراکز کے اردگرد منڈلاتے رہتے ہیں اور مخصوص فکر اور اپروچ کے حامل ڈاکٹروں کو تحفے اور نذرانے اداکرکے ان سے وہ ادویات تجویز کرنے کی تحریک دے رہے ہیں جن ادویات کو جانچنے، معیار کا پتہ لگانے اور موثریت اور فعالیت کے حوالہ سے کوئی بھی طریقہ کار مروج نہیں۔ یہی وہ طریقہ کار ہے جس کے طفیل کشمیرکے بازار غیر معیاری ادویات سے بھرے پڑے ہیں۔
معلوم نہیں کہ یہ وباء کشمیرمیںکیوں جڑیں پکڑ چکی ہیں جبکہ جموں کے بازار کماحقہ اس وباء سے قدرے محفوظ ہیں۔ جموں میں ادویات کی خریداری پر لوگوں کو چھوٹ کی مراعات دستیاب ہے لیکن کشمیرمیں ادویات پر کوئی چھوٹ دسیتا ب نہیں ، جموں میں سرکاری ہسپتالوں کے اندر قائم فیر پرائس دکانوں پر بھی کم سے کم دس فیصد چھوٹ دی جارہی ہے لیکن کشمیر اس چھوٹ سے مستثنیٰ ہے۔ کیایہ بھی لوٹ اور ناجائز استحصال کی ایک اور مثال نہیں!