کشمیر میں مہنگائی کا جن بند بوتل سے باہر آگیا یہ جن اب اس حد تک بے قابو ہوچکا ہے کہ اس کے شر سے کشمیرکا ہر گھرانہ متاثر ہورہاہے۔ مہنگائی کی چکی میں لوگ پسے اور کنگال ہوتے جارہے ہیں۔ اس صورتحال سے انہیں تحفظ دینے کیلئے کوئی پرسان حال نہیں ۔
اچانک مہنگائی کا یہ طوفان کشمیرپر کہاں سے نازل ہوا، یہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہاہے ۔سیلاب نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، سیلاب کی قہرسامانیوں سے پاکستان کے کروڑوں لوگ جھوج رہے ہیں، روز مرہ استعمال کی ساگ سبزیوں کی قیمتیں آسمان کی وسعتوں کو چھورہی ہیں، مارکیٹ کی اس چڑھائی کا مقابلہ کرنے کیلئے افغانستان اور ایران کی منڈیوں کا رُخ کیاجارہاہے لیکن کشمیر میں کوئی سیلاب نہیں آیا، خدانخواستہ کسی سماوی آفت کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑا، نہ ژالہ بھاری ہوئی اور نہ کوئی پیداوار یا فصل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ گیا، سرکاری سطح پر کوئی نیا ٹیکس بھی نافذ نہیں ہوا، لیکن ان زمینی حقائق کے باوجود کشمیر مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔
کشمیری ساگ، جو روایتی طور سے ہر گھرانے کی محبوب ، مرغوب اور پسندیدہ سالن ہے اپنے تاریخی سفر کے اس مرحلہ میں ایک سو روپے فی کلوفروخت کیاجارہاہے۔یہ پہلا موقعہ ہے کہ جب کشمیری ساگ کی انتہائی قیمتیں مقرر کرکے فروخت کیاجارہاہے۔ اس کو کون سے سنہرے پر لگ گئے کہ اس کی اڑان اونچی ہوگئی ہے۔ بحیثیت مجموعی مارکیٹ میں دسیتاب مختلف اقسام کی سبزیوں کی قیمتیں ایک سواور ڈیڑھ سو روپے فی کلو کے حساس سے مقرر کی گئی ہیں۔جبکہ عموماًیہ ۳۰اور ۵۰؍روپے فی کلو کے درمیان دستیاب رہا کرتی تھی۔ لیکن اچانک اضافہ حیران کن ہی نہیں بلکہ مکروہ عزائم اور نیت بدسے عبارت ہے۔
سبزیوں کی انتہائی گران قیمتیں مقرر کرنے کے ردعمل میں دوسری اشیاء کی قیمتیں بھی اضافہ کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کررہی ہیں۔ وہ کون سی اشیا نہیں جس کی یکطرفہ اور من مانی قیمتیں مقرر کرکے وصول نہیں کی جارہی ہیں۔ مارکیٹ کا یہ منظرنامہ دیکھ کر ہوش اڑجاتے ہیں، ایسامحسوس ہورہاہے کہ جیسے کشمیرمیں اوسط شہریوں کی اوسط آمدن میں اچانک کوئی اتنا بڑا اضافہ ہوا ہے کہ مارکیٹ پر کنٹرول کرنے والے بیوپاریوں، سٹاکسٹوں ،کاروباریوں ، چھوٹے بڑے دکانداروں نے فیصلہ کرلیا کہ وہ کیوں پیچھے رہیںاور کیوں نہ اس نظرنہ آرہی اختراعی اضافی آمدنی کا کچھ حصہ گاہکوں سے وصول کیاجائے۔
مہنگائی کا یہ جن اب بے قابو ہورہاہے۔ کوئی اس جن کو بوتل میں بند نہ سہی لیکن کسی حد تک قابو کرنے کی ذرہ بھر بھی کوشش نہیں کررہا ہے ۔ مارکیٹ پر نگاہ رکھنے اور مختلف اشیاء کی قیمتیں مقرر کرنے کے ذمہ دار ادارے خاموش تماشہ بنے ہیں۔ کوئی حرکت نہیں ہورہی ہے البتہ مختلف دوسرے قوائد کی خلاف ورزیوں کی پاداش میں دکانداروں سے جرمانے وصول کرنے کو ہی حرف آخر خیال کیاجارہاہے۔ انتظامیہ کے متعلقہ اداروں کی جانب سے یہ لاپرواہی اور بے اعتنائی کیوں؟ اگر وہ خود کو مروجہ قوانین پر عمل آوری کے حوالوں سے بری الذمہ سمجھ رہے ہیں لیکن معاشرے کے تئیں کیا ان کی کوئی مروت اور اخلاقی ذمہ داری نہیں، لیکن لگ رہاہے کہ کشمیر پر کرگسی کرداروں اور کرگسی خصلت وفطرت کے حامل کاروباریوں کے ایک مخصوص طبقے کی گرفت روز بروز مضبوط ہوتی جارہی ہے۔
اوسط شہری ان کرگسی کرداروں اور منافع خوروں کے مذموم ومکروہ ہتھکنڈوں کے آگے خود کو اب بے بس پارہے ہیں کیونکہ ان کی داد رسی کیلئے کوئی ذمہ دار سامنے نہیں آرہاہے۔ بے شک کشمیر حالیہ کچھ برسوں کے دوران ایک کھپت والے خطہ میں تبدیل ہوچکاہے اور لوگ اپنی روزمرہ کی ضروریات کی تکمیل کیلئے بیرونی منڈیوں پر حد سے زیادہ انحصار کررہے ہیں ۔ لیکن حیرت تو اس بات پر ہے کہ جو کچھ مقامی سطح پر پیداوار ہے ان کی حد سے زیادہ قیمتیں وصول کرنے کی بیماری شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔
ساگ، ندرو اور چند دوسری سبزیاں تو مقامی بھی ہیں لیکن جونہی موسم کی مناسبت سے یہ مارکیٹ میں آتی ہیں تو مقامیت کے نام پر لوٹ اور ناجائز منافع خوری کے تمام ریکارڈ مات کردیئے جاتے ہیں۔ اس لوٹ کے سامنے گاہکوں کے لئے صبر کے سوا کچھ نہیں۔
مارکیٹ میں قیمتوں کے تعلق سے اتارچڑھائو کوئی حیران کن نہیں لیکن کشمیرکے بازاروں میں جو اتار چڑھائو روز کا معمول بن چکا ہے اور جس اتار چڑھائو کے تعلق سے پرائس کنٹرولنگ اتھارٹی اور دیگر متعلقہ ادارے چشم پوشی کررہے ہیں وہ بدبختانہ اور مجرمانہ فعل اور اپروچ ہی تصور کیاجاسکتاہے۔ تعجب تو اس بات کو لے کر بھی ہے کہ بازار کمیٹیوں کے ساتھ صلاح ومشورہ کے بعد پرائس کنٹرولنگ اتھارٹیز قیمتیں مقرر کرتی ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نرخ ناموں کو دکانوں اور کاروباری اداروں پر آویزان کرنے تک ہی محدود ہے ، پھر جو قیمتیں مقرر کی جارہی ہے مقرر کرتے وقت کئی ایک مصلحتوں سے بھی کام لیاجارہاہے۔ کاروباریوں کی مختلف تنظیمیں صرف اور صرف اپنے اپنے کاروبار سے وابستہ اداروں کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی سمت میں اپنی تمام تر توجہ، صلاحیت اور توانائی بروئے کار لارہی ہیں لیکن اوسط گاہکوں کے مفادات کو کسی خاطرمیںنہیں لایاجارہاہے۔ یہ ناجائز منافع خوری ، ناجائز استحصال اور لٹیرانہ طرزعمل کا ابتر ترین عملی مظاہرہ ہے جو قابل مذمت ہی نہیں شرمناک فعل بھی ہے۔