واشنگٹن//
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز نیشنل پبلک ریڈیو [این پی آر] اور پبلک براڈکاسٹنگ سروس [پی بی ایس] پر ایک نیا حملہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے لیے وفاقی فنڈنگ میں کٹوتی کے "بہت زیادہ خواہشمند ہیں” اور دونوں عوامی نشریاتی اداروں پر "انتہائی متعصب” ہونے کا الزام لگایا۔
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں نامہ نگاروں کو بتایا، "میرے لیے اسے ختم کرنا قابلِ فخر ہو گا”۔
یورپ کے برعکس امریکہ میں عوامی میڈیا کو ناظرین کی بڑی تعداد اور سامعین کی ریٹنگ نہیں ملتی۔
امریکہ میں عوامی میڈیا طویل عرصے سے قدامت پسندوں کی تنقید کی زد میں ہے جو اس پر بہت زیادہ بائیں طرف جھکاؤ رکھنے کا الزام لگاتے ہیں۔
ٹرمپ نے این پی آر اور پی بی ایس پر حملہ کرتے ہوئے کہا، "یہ تمام پیسہ ضائع ہو رہا ہے۔ اور ان اداروں کا نکتۂ نظر بہت متعصب ہے۔”
پی بی ایس کی ویب سائٹ کے مطابق وفاقی سبسڈی کی تقسیم کی ذمہ دار ایجنسی کارپوریشن فار پبلک براڈکاسٹنگ (سی پی بی) کو سالانہ تقریباً 500 ملین ڈالر ملتے ہیں جسے کانگریس بجٹ پر ووٹ دیتے وقت منظور کرتی ہے۔
سی پی بی کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکہ میں کئی مقامی ریڈیو اور ٹیلی ویژن سٹیشنوں کو اپنی سبسڈی کا "70% سے زیادہ” ادا کرتا ہے جو اس کے عوض این پی آر اور پی بی ایس کے تیار کردہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پروگرامز دوبارہ نشر کرنے کے حقوق خریدتے ہیں۔
جہاں تک این پی آر کا تعلق ہے تو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے براہِ راست وفاقی سبسڈی کا صرف "تقریباً 1%” ملتا ہے اور اپنا باقی بجٹ یہ ان اشتہارات اور پروگراموں کے ذریعے حاصل کرتا ہے جو وہ مقامی ریڈیو سٹیشنز کو فروخت کرتا ہے۔
نمائندہ مارجوری ٹیلر گرین کے مطابق کمیشن برائے حکومتی کارکردگی کے صدر اور ٹرمپ کے ایک کٹر حامی ایلون مسک بدھ کو این پی آر اور پی بی ایس کی فائلوں کا جائزہ لیں گے۔ قبل ازیں کمیشن برائے حکومتی کارکردگی ملازمین کو فارغ اور متعدد وفاقی محکموں میں کفایت شعاری کے سخت اقدامات نافذ کر چکا ہے۔کانگریس کی ایک خاتون نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر پوچھا: "کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ٹیکس کا استعمال انتہائی بائیں بازو کے نظریات اور این پی آر اور پی بی ایس پر پروپیگنڈے کے لیے کیا جائے؟”
این پی آر نے کہا ہے کہ 340 ملین کی کل آبادی میں سے 41 ملین امریکی ہر ہفتے اس کے پروگرام سنتے ہیں۔پی بی ایس نے کہا ہے کہ 36 ملین لوگ ہر ماہ اس کا ایک مقامی چینل دیکھتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے قبل ازیں غیر ملکی نشریاتی شعبے کو نشانہ بناتے ہوئے اس سرکاری ایجنسی کو ختم کر دیا جو وائس آف امریکہ، ریڈیو فری ایشیا، اور ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کی نگرانی کرتی ہے۔