منگل, مئی 13, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

ووٹروں کی ہراسانی اور وحشت زدگی جاری 

کیا وقار کی پشت پر بھی کوئی ہے؟

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2024-09-11
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

انڈیا بلاک (اتحاد) سے وابستہ دو اہم اکائیوں … کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے درمیان جموں وکشمیرمیں انتخابی گڑھ جوڑ نہ صرف بیرون جموںوکشمیربلکہ اندرون یوٹی کئی ایک سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے، اس گٹھ جوڑ کو مختلف طریقوں اور اختراعی نریٹو کو لے کر تنقید اور ہدف کا نشانہ بنایاجارہاہے، کوئی اس گٹھ جوڑ کو محض حلقوں کی آپسی تقسیم تک محدود قرار دے کر دعویٰ کررہاہے کہ اس گٹھ جوڑ کا بُنیادی اشوز کی سمت میں کوئی مشترکہ روڈ میپ وضع کا مدعا ومقصد نہیں ہے، کوئی ۳۷۰؍ کے تعلق سے یہ دلیل دے رہا ہے کہ نیشنل کانفرنس کا اس حوالہ سے موقف اگر چہ واضح ہے لیکن اتحاد کے باوجود کانگریس اس معاملے پر بدستور خاموش ہے، کوئی اس گٹھ جوڑ کو جموںوکشمیر کے لئے نہ صرف خطرناک بلکہ دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کی واپسی سفر کی سمت میں ابتداء قرار دے رہا ہے اور اب اس گٹھ جوڑ کا ایک فریق کانگریس کا بانہال سے میدان میں اُترا اُمیدوار وقار وانی نشانہ بنارہا ہے، اس نے نہ صرف عمرعبداللہ کو ’بھکاری‘ قرار دیا ہے بلکہ نیشنل کانفرنس کی موجودہ قیادت اور اس کے بانی مرحوم شیخ محمدعبداللہ تک کے بارے میں دشنام طرازی کرکے اپنے بار ے میں اس تاثر کو اور بھی مستحکم کردیا ہے کہ پسماندہ عقل وشعور اور فہم وادراک کے حوالہ سے پسماندہ ہی رہتا ہے چاہئے وہ معاشرتی اور سیاسی شعور کے اعتبار سے لاکھوں بار ان کے شانہ بشانہ نظرآتا رہے۔
وقار وانی کی اس زبان درازی اور نیشنل کانفرنس کی طرف سے شدید ردعمل کے نتیجہ میں پردیش کانگریس کی موجودہ قیادت نے وقاروانی کی اس زبان درازی کی مذمت کی، اس زبان درازی کو اس کی ذاتی خباثت قراردیا بلکہ نیشنل کانفرنس کے ساتھ انتخابی گٹھ جوڑ کے دفاع میں اپنے یقین کا بھی اعادہ کیا۔ لیکن پارٹی ہائی کمان کی انتباہ کے باوجود وقار اپنے انتخابی جلسوں میںبدکلامی سے اجتناب نہیںکررہے ہیں او رمسلسل بدزبانی سے کام لیتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے پرچم کو سرخ کہکر دعویٰ کررہے ہیں کہ اس پر خون کے دھبے ہیں۔
وقار کیوں اس حد تک گر گیا، اس کی کچھ وجوہات ہیں، ایک وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ ان کا جانشین طارق حمید قرہ نیشنل کانفرنس کے ساتھ انتخابی گٹھ جوڑ کو قابل عمل بنانے کی سمت میں اپنی عہد بندی کا مظاہرہ کررہا ہے بلکہ پارٹی قیادت سے انہیں بے دخل کرنے میں اس کی قیادت میں پارٹی کے اندر موجود لابی نے اہم کردار اداکیا۔ ظاہر ہے اپنی اس بے عزتی اور صدارتی عہدہ سے تنزلی کو لے کر صدمہ تو ہونا ہی ہے لیکن اس صدمہ کو وہ غصہ اور بدکلامی میں تبدیل کرکے خود کو ہائی کمان کی نظروں میں گرا رہے ہیں اور اگر یہی لکیر پیٹتے رہے تو وقار کی حیثیت ان دوسرے کانگریسیوں کی سی ہی ہوگی جو ماضی میں پارٹی میںرہ کر اسی سے مشابہت طرزعمل کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ ایسے کئی سابق کانگریسی ہیں جن میں سے کچھ ایک وزارتی عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں لیکن آج ایک پارٹی کی سیڑھیوںپر سجدہ ریز ہوکرکسی دوسری پارٹی کے چرنوں میں اپنی سجدہ ریزی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی حیثیت آوارہ گرد طوائفوں سے بھی گئی گذری ہے۔
اگر وقار کا غصہ یا صدمہ اس بات پر ہے کہ نیشنل کانفرنس نے کیوں بانہال حلقے سے اس کے مقابلے میں اپنا اُمیدوار میدان میں اُتارا ہے تو وہ جائز نہیں کیونکہ حلقوں پر اتفاق رائے کی روشنی میں کچھ حلقے ایسے چھوڑے گئے ہیں جہاں سے دونوں جماعتیں دوستانہ جذبے کے تحت آپس میں مقابلہ کرینگی لیکن اخلاقیات اور نظم وضبط کی حدود میں رہ کر ! اور بھی کئی حلقے ہیں جہاں سے دونوں پارٹیوں نے اپنے اُمیدوار میدان میں اُتارے ہیں۔ ان حلقوں سے ناراضگی ،غصہ یا برہمی کیوں نہیں، صرف بانہال کا وقار اپنے صدمے کو زبان دے رہا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ وقار اپنے ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں یا اُس کی بھی کوئی پشت پناہی کررہا ہے؟
الیکشن کی تکمیل کے بعد حکومت کون بنائے گا اس کا فیصلہ عمرعبداللہ، محبوبہ مفتی اور نہ ہی رویندر رینہ کے ہاتھ میں یاحد اختیار میں ہے۔ یہ حق اور فیصلہ لوگوں کے حد اختیار اور انکی ضرورتوں اور خواہشات کے تعلق سے صوابدید پر منحصر ہے۔ قطع نظر اس کے کہ ہر پارٹی دعویٰ کررہی ہے کہ وہ اگلی حکومت بنائے گی لیکن حکومت کی اس دعویٰ داری کی سمت میں ہر پارٹی جن نریٹوز کے ساتھ میدان میں ہے وہ نریٹوز عوام کی ضرورتوں، خواہشات اور ان کی قلیل المدتی یا طویل المدتی چاہتوں سے کوئی مسابقت نہیں رکھتے، بلکہ بیانات اور دعوئوں کے ساتھ ساتھ طرزعمل کاگہرائی سے جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ووٹروں کو نہ صرف ہراسان کیاجارہا ہے بلکہ ان کے اندر خوف ، ڈراور وحشت پیدا کی جارہی ہے۔
فضا کو شعوری اور دانستہ طور سے مکدر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، انتخابی جلسوں میںجوزبان استعمال کی جارہی ہے وہ لوگوں کے درمیان نفرتوں کو ایک نئی سمت عطاکرنے کا موجب بن سکتی ہے، خاص کروہ لوگ جو ماضی قریب میں کچھ اور ہی بولی بولتے رہے ہیں کو نہ معلوم کس سمت میں حوصلہ افزائی مل رہی ہے اور ایک نئے نریٹوکے ساتھ انتخابی میدان کو اب اپنے لئے حلال قرار دے رہے ہیں، یہ وہی طبقہ ہے جو ۱۹۷۲ء سے اب تک جموںوکشمیر کا ہندیونین کے ساتھ الحاق کے تعلق سے موقف بدلتا رہا ہے ، کبھی الحاق کو تقسیم ہند پاک کا نامکمل ایجنڈا قراردیا جاتا رہا، کبھی الحاق حتمی ہے تو کبھی کشمیرکو ہند کی فوج کے بل بوتے پر نو آبادیاتی قرار دیتارہاہے۔
ان کے علاوہ کئی دوسرے بھی ہیں جو انتخابی میدان میں اُتر ے ہیں یا جن کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ انہیں اُتاراگیا ہے، اس تعلق سے خود عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی کے بعض حالیہ بیانات بھی سامنے آئے ہیں جن  میں ان اُتارے جارہے لوگوں کی واضح طور سے نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ سارا منظرنامہ اور مختلف معاملات کسی اور ہی سمت کی طرف اشارہ کررہے ہیں جو کشمیر کے لئے آنے والے ایام میں انتہائی تکلیف دہ اور نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے اگر لوگوں نے اپنے ووٹ کا صحیح اور سوچ سمجھ کر استعمال نہ کیا بلکہ مقامیت یا علاقائیت کے جذبات سے مغلوب ہوکر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا ۔ لوگوں کو یہ بات نظرانداز نہیں کرنی چاہئے کہ جو لوگ نئے نریٹو یا دعوئوںکے ساتھ ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہورہے ہیں دراصل ان کی پشت پر کون ہیں اوران کے مقاصد اور عزائم کیا ہیں۔
معاملہ دفعہ ۳۷۰؍ کی بحالی یامنسوخی کے فیصلے کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ کشمیرکی ثقافت ، مخصوص شناخت ، عزت نفس کا تحفظ، ماحولیاتی توازن کی بقاء کے حوالہ سے زمین کا تحفظ، پانی، جنگلات اور معدنیات کی لوٹ کی راہ میں حائل ہونے اور سیاست کے نام پر عوام کے جذبات کاستحصال کرنے والوں کے مکروہ عزائم اور ان کی دسترس سے کشمیرکو بچانے کی سمت میں مجموعی کوششوں اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند آپسی یکجہتی کے دوٹوک مظہر سے ہے۔
ShareTweetSendShareSend
Previous Post

’اظہار تعلقی‘

Next Post

رینا، ہربھجن، حفیظ، براوو یو ایس ماسٹرز ٹی 10 کے دوسرے سیزن میں نظر آئیں گے

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
رائنا نے تمام طرز کی کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا

رینا، ہربھجن، حفیظ، براوو یو ایس ماسٹرز ٹی 10 کے دوسرے سیزن میں نظر آئیں گے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.