’’کشمیری پنڈت کشمیری سماج کا ایک اہم حصہ ہے، ہم چاہتے ہیںکہ وہ واپس آکر اپنے مادر وطن میں پہلے کی طرح کشمیری سماج کا حصہ بن کر زندگی گذاریں۔ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور انکی واپسی اور بازآباد کاری کو اسی انسانی مسئلہ کی نظرسے دیکھاجانا چاہئے‘‘۔ان خیالات کا اظہار میرواعظ کشمیرمولوی محمدعمر فاروق نے گذشتہ جمعہ کو تاریخی جامع مسجد میں نمازیوں کے اجتماع سے خطاب کے دوران کیااور ساتھ ہی ترک سکونت اختیار کرگئے پنڈتوں سے اپیل کی کہ وہ واپس آجائیں۔ نیشنل کانفرنس کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر فاروق نے بھی کشمیری پنڈتوں سے گھر واپسی کی اپیل کی ہے۔
کشمیر کے ان دونوں سرکردہ سیاسی شخصیات کا کشمیری پنڈتوں سے واپسی کی اپیل میلہ کھیر بھوانی کی مناسبت سے شرکت کے لئے آئے ہزاروں پنڈتوں کی وادی میں موجودگی کے عین موقع پر سامنے آئی ہے جس کی اپنی اہمیت ہے، اپیل جہاںکشمیر ی سماج کے مختلف طبقوں کے درمیان آپسی مفاہمت کے جذبے سے سرشار محسوس کی جارہی ہے وہیں اس بات کو بھی واضح کرنے کیلئے کافی ہے کہ آخر کب تک کشمیری سماج کا یہ اہم حصہ اپنے وطن اور گھروں سے دور کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرتا رہے گا۔
کشمیری پنڈتوں کا معاملہ واقعی ایک انسانی مسئلہ ہے جس کی سنگینی سے انکار کی گنجائش نہیں لیکن بدقسمتی کہیے یا المیہ کہ اس اشو کو کچھ سیاسی اژدھے اپنی سیاست کی دکان کے طور سجائے بھی بیٹھے ہیں اور چلا بھی رہے ہیں۔ اس حوالہ سے کئی ایک سیاسی جماعتوں، ان سے وابستہ آلہ کاروں، استحصالی ذہنیت کے بدکرداروں کا رول گذرے برسوں کے دوران کسی سے پوشیدہ نہیں رہا، خود کشمیری پنڈت سماج کی صفوں میں موجود کچھ اسی ذہنیت کے حامل خودساختہ لیڈر بھی یہی کردار اداکرتے رہے ہیں۔ ان کے اپنے حقیر مفادات ہیں جبکہ کچھ وہ چہرے بھی وقتاً فوقتاً بے نقاب ہوتے رہے ہیں جو کشمیری مائیگرنٹ پنڈتوں کے نام پر خود ریلیف اوران کے راشن کارڈوں پر ان کے راشن کا کوٹہ اپنے اپنے حلقوں سے ہضم کرتے رہے ہیں۔
اگر چہ وہ سارے لیڈران چاہئے خود ساختہ ہیں یا پُرخلوص اپنی برادری کی واپس وطن کی بات کررہے ہیںلیکن اس واپسی کو یقینی بنانے کی سمت میں کوئی عملی اور فعال پہل اب تک ان کے حوالہ سے یا ان سے منسوب نہیںدیکھی گئی ہے۔ یہ ایک ایسا اشو ہے جس کے ارد گرد تہہ اندر تہہ کئی سارے اشوز پیوست ہیں۔لیکن ان کے حوالہ سے اس ایک اشو پر ہر گز کسی اختلاف کی گنجائش نہیں کہ وہ انتہائی نامسائد ، پریشان کن اور روحانی اور نفسیاتی دبائو ایسے حالات میںگھر بار چھوڑ نے پر مجبور ہوئے تھے، پھر مائیگریشن کا مسئلہ انہی تک محدودنہیں تھا، سینکڑوں مسلمان اور سکھ خاندان بھی انہی حالات سے دو چار ہوئے اور انہیں بھی ترک سکونت کاراستہ اختیار کرنا پڑا۔
لیکن اب اس معاملہ کو گذرے تقریباً تیس سال ہورہے ہیں۔ وہ ماضی ہے حال اور مستقبل ہمارے سامنے ہے۔ماضی کی غلطیاں ، کوتاہیاں، لغزشیں یا زیادتیاں بے شک بلاشبہ یاد ماضی عذاب کی مترادف ہے لیکن حال اور مستقبل کی تعمیر بھی ناگزیر ہے۔ ماضی کی تلخیوں کو آنی والی نسلوں کو منتقل کرنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا بلکہ یہ تباہی وبربادی کی نئی بُنیاد یں ہی ڈالنے کا موجب بنتا رہے گا، ہم سب کشمیری بحیثیت مجموعی کچھ دیکھے اور کچھ ان دیکھے ہاتھوں، عیاں اور پوشیدہ قوتوں اور جنونی عنصرکی ریشہ دوانیوں ،سیاہ کاریوں اور ان کے اندر کی شیطان صفت حرکتوں اور اپروچ کا نشانہ بنتے رہے ہیں،ہمارے جسموں پر لگے یہ زخم آپسی تال میل، دکھ درد کو بانٹنے اور مل جل کر مستقبل کی فکر کو لے کر آگے بڑھنے سے ہی اب مندمل ہوسکتے ہیں۔ لیکن اگر اس سارے اشو کو کچھ بالی ووڈ سے وابستہ کچھ مسخروں کے حقیر مفادات، غلیظ ذہنیت سے عبارت ایجنڈا اور ان کی طبقاتی جنون پرستی کا مطیع رہنے دیا جاتا ہے تو نہ صرف انسانیت ایک مرتبہ پھر شرمندہ ہوگی بلکہ زخم مندمل ہونے کی بجائے رستے ہی رہینگے!
ہمارا نظریہ اور موقف پہلے دن سے ہی یہ رہا ہے کہ یہ سیاسی نہیں بلکہ سنگین نوعیت اور غورفکر کا حامل ایک انسانی مسئلہ ہے اور اسی عینک سے دیکھ کر اس کا آبرومندانہ اور باوقار حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ کشمیرکے کچھ سکیورٹی حصار والے علاقوں میںراہداری طرز کی کچھ بستیوں کی تعمیر کی جائے، پنن کشمیر ایسی طبقاتی اور فرقہ پرستی کی ذہنیت سے سرشار تنظیم کی ہیوم لینڈ کے مطالبے کو حل تصور کیاجائے، مذہبی تہواروں یا موسمی تہواروں کی مناسبت سے سکیورٹی بسوں میں لادکر پنڈت برادری سے وابستہ عقیدت مندوں کو کچھ روز کے لئے کشمیر لاکر ان پر کسی طرح کا احسان جتلا یا جاتا رہے یہ اور اس نوعیت کے جو کچھ بھی حل کے حوالہ سے خیالات ہیں وہ فروعی، غیر حقیقی اور غیر ذمہ درانہ طرز کے ہیں۔ اصل حل یہ ہے کہ ہر پنڈت اپنے علاقے میںواپس آکر پہلے کی طرح اپنے ہمسایوں کے ساتھ زندگی گذارے، کسی سکیورٹی بستی کے اندر زندگی گذارنے سے بہتر ہے جیل کی چار دیواری کے اندر رہ کر گذاری جائے،پنڈت برادری سے وابستہ بچے، خواتین ،بزرگ جوان نہ کسی حکومت کے بندھوا مزدور ہیں اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت یا سیاسی شخصیت کے مہرہ، انہیں اپنے طریقے سے اور اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق باوقار طریقے سے زندگی بسرکرنے کا حق ہے، انہیں اس حق سے محروم نہیں کیاجاسکتا ہے۔
اس تناظرمیں ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور میر واعظ کشمیرکی تازہ ترین گھر واپسی کی اپیلوں کاخیر مقدم کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے بلکہ انہیں عملی جامہ پہنانے کی سمت میں سنجیدہ اقدامات اُٹھانے کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے۔ اب تک بہت ہوچکا ، بہت سارے سیاستدان پنڈتوں کی آڑمیں سیاست کرچکے ہیں،یہاں تک کہ جموںنشین ایک سابق ڈپٹی وزیراعلیٰ نے بھی اسی طرز کی اپنی سیاسی دکان سجانے کی اُسوقت کوشش کی جب ڈاکٹر فاروق عبداللہ میلہ کھیر بھوانی میںشرکت کررہے تھے کہ مذکورہ جموں نشین سیاست کار کا یہ بیان سامنے آیا کہ فاروق عبداللہ پنڈتوں کو لے کر سیاست کررہے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ سیاسی دکان اس لیڈر کی پارٹی گذشتہ کئی دہائیوں سے چلارہی ہے جس کے ساتھ وہ اپنی وابستگی رکھ رہے ہیں ۔ اس کی پارٹی نے ہر الیکشن میں اس اشو کو اپنے لئے ووٹ بینک کے طور استعمال کیا، پھر بھی انہیںکوئی شرمندگی نہیں!
میرواعظ کی اپیل کو عملی جامہ پہنانے کی لئے کشمیر کی سول سوسائٹی سے وابستہ سبھی سٹیک ہولڈر بشمول کاروباری اورتجارتی انجمنیں ، محلہ سوسائٹیاں، پہنچایتی ادارے اور ضلع سطح پر قائم منتخبہ اور غیر منتخبہ اداروں کیلئے لازم ہے کہ وہ خود کو اس حوالہ سے کوئی تعمیری اور مثبت رول اداکرنے کیلئے حرکت میںآجائیں۔