سرینگر//(ویب ڈیسک )
امریکہ کے کمیشن برائے مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف)نے پاکستان، چین، سعودی عرب اور ایران سمیت ۱۲ممالک کو مذہبی آزادی کے حوالے سے خدشات پائے جانے والے ملکوں کی فہرست (سی پی سی)میں برقرار رکھنے کی سفارش کی ہے۔
کمیشن نے کہا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے ۲۰۲۲ میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے ارکان کے خلاف توہینِ مذہب کے قانون کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔
امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی کی۲۰۲۲ کے واقعات پر مبنی رپورٹ میں جن۱۲ ملکوں کو سی پی سی کی فہرست میں شامل رکھنے کی سفارش کی گئی ہے ان میں روس، تاجکستان، ترکمانستان، شمالی کوریا، کیوبا، برما اور اریٹریا بھی شامل ہیں۔
سی پی سی ایسے ملکوں کو کہتے ہیں جن کے بارے میں مذہبی آزادی کے حوالے سے خصوصی خدشات پائے جاتے ہیں۔رپورٹ میں سی پی سی ان ممالک کو کہا گیا ہے جہاں حکومت مذہبی آزادیوں کی’مخصوص اور انتہائی درجے کی‘خلاف ورزیوں میں ملوث ہو یا انہیں برداشت کرے۔
ان۱۲ ملکوں کے علاوہ پانچ مزید ملکوں کو سی پی سی میں شامل کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے جن میں افغانستان، نائیجیریا، شام اور ویتنام شامل ہیں۔
پیر کو جاری ہونے والی رپورٹ میں یو ایس سی آئی آر ایف نے الجیریا اور افریقی ملک سینٹرل افریقن ری پبلک کو اسپیشل واچ لسٹ (ایس ڈبلیو ایل) میں برقرار رکھنے کی سفارش کی ہے جب کہ اس فہرست میں مزید نو ملکوں کو شامل کرنے کی سفارش ہے۔
ان نو ملکوں میں ترکی، مصر، عراق، انڈونیشیا، ملائیشیا، سری لنکا، قزاقستان، ازبکستان اور آذر بائیجان شامل ہیں۔
اس کے علاوہ یو ایس سی آئی آر ایف نے عالمی شدت پسند تنظیم داعش سمیت بوکو حرام، الشباب، حوثی، حیات تحریر الشام اور اسلامک اسٹیٹ ان گریٹر صحارا کو بھی خصوصی تشویش والی تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی ہے۔
امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی نے اپنی رپورٹ میں۲۰۲۲ کے دوران پاکستان میں پیش آنے والے اہم واقعات کا حوالہ دیا ہے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں مذہبی آزادی کی صورتِ حال مسلسل خراب ہو رہی ہے۔ مذہبی اقلیتوں پر حملوں یا انہیں دھمکیاں ملنے کے واقعات تواتر سے پیش آ رہے ہیں۔ مذہبی اقلیتوں کو توہینِ مذہب کے الزامات سمیت ٹارگٹ کلنگ، ہجوم کے تشدد، ماورائے آئین قتل، جبری تبدیلی مذہب، عبادت گاہوں کی توہین سمیت خواتین اور لڑکیوں کو جنسی ہراسانی کا سامنا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے مقدمات مذہبی آزادی کیلئے بدستور خطرہ ہیں۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف کی حکومت نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے ارکان کے خلاف توہینِ مذہب کے قانون کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق شیعہ، احمدیوں، مسیحی، ہندو اور سکھ برادریوں کو سخت اور امتیازی قانون سازی کا سامنا ہے۔
رپورٹ میں پاکستان میں پیش آنے والے کچھ واقعات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ گزشتہ برس فروری میں ایک عدالت نے سندھ کے ضلع گھوٹکی کے ایک نجی اسکول پرنسپل نوتن لال کو توہینِ مذہب کے الزامات پر آرٹیکل۲۹۵سی کے تحت عمر قید کی سزا سنائی۔
مذکورہ پرنسپل پر ایک طالب علم نے تین برس قبل توہینِ مذہب کا الزام عائد کیا تھا تاہم سزا کے خلاف نوتن لال کی اپیل اب تک زیرِ التوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق فروری میں ہی پنجاب میں ایک ہجوم نے پتھر مار مار کر محمد مشتاق نامی شخص کو قتل کر دیا جس کا ذہنی توازن درست نہیں تھا۔ مشتاق پر قرآن نذرِ آتش کرنے کا الزام تھا۔ لگ بھگ ۳۰۰؍ افراد پر مشتمل ہجوم نے اس الزام میں مشتاق کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش درخت سے لٹکا دی تھی۔
کمیشن برائے مذہبی آزادی نے امریکی حکومت کو چند تجاویز بھی پیش کی ہیں جن میں چار ملکوں سے متعلق امریکی پالیسی پر نظر ثانی کرنا بھی شامل ہے۔ ان ملکوں میں پاکستان، سعودی عرب، تاجکستان اور ترکمانستان شامل ہیں۔
کمیشن نے سفارش کی ہے کہ مذکورہ ملکوں سے متعلق معنی خیز نتائج اور انہیں مثبت تبدیلیوں کے لیے آمادہ کرنے کیلئے پالیسی پر نظر ثانی کی جائے۔