جموں وکشمیر میں اپوزیشن پارٹیوں کی مایوسیوں میں ایک اور مایوسی کا اضافہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے اُس بیان کے تناظرمیں ہوا ہوگا جس کا تعلق الیکشن کے انعقاد کے بعد ریاستی درجہ کی بحالی سے ہے۔ وزیرداخلہ نے واضح کیا ہے کہ جموں وکشمیرمیں فہرست رائے دہندگان کو حتمی شکل دی جارہی ہے اور الیکشن کمیشن کے حد اختیار میں ہے کہ وہ کب جموں وکشمیر میں الیکشن کا انعقاد کرے البتہ اُس الیکشن کے بعدہی ریاستی درجہ کی بحالی ہوگی جس کے لئے ’ہم عہدبند ہیں‘۔
وزیر داخلہ کا یہ بیان ان پارٹیوں اور ان سے وابستہ لیڈر شپ کیلئے واقعی مایوسی کا موجب ہوسکتا ہے جو الیکشن کے انعقاد کی بہت جلد توقع رکھ کر ورکروں کے اجلاسوں کا اہتمام وانعقاد کرنے میں کچھ مہینوںسے بے حد سرگرم اور پُر جوش نظرآرہے ہیں۔ وہ یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ جلد یا بہ دیر ریاستی درجہ بحال ہوگا اور غالباً اسی خواب کو آنکھوں میںسجا کر ان میں سے کچھ لیڈر یہ اعلان بھی کرتے سنے جارہے ہیں کہ اقتدار میں آ نے کی صورت میں ان سبھی اقدامات اور فیصلوں کو کالعدم قرار دیاجائے گا جو فی الوقت لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا کی قیادت میں ایڈمنسٹریشن لے رہی ہے۔
ایسے اعلانات شد ومد کے ساتھ سید الطاف بخاری کی قیادت میں اپنی پارٹی کی جانب سے کئے جارہے ہیں اور واضح طور سے عوام کو یہ یقین دلایاجارہاہے کہ جن اقدامات اور فیصلوں سے وہ فی الوقت منفی طور سے متاثر ہورہے ہیں ان فیصلوں اور اقدامات کی الٹی گنتی اقتدار میں آکر شروع ہوگی۔ باقی پارٹیوں کا لب ولہجہ دبا دبا سا ہے البتہ ایڈمنسٹریشن کے بعض اقدامات کے خلاف عوامی سطح پرا حتجاجی مظاہروں کا اہتمام کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ عوامی سطح پر احتجاجی مظاہرے منظم کرنے میں اب تک غلام نبی آزاد کی قیادت میں پارٹی، پی ڈی پی ، اپنی پارٹی جموںوکشمیر میں بحیثیت مجموعی جبکہ سابق بی جے پی لیڈر چودھری لال سنگھ اپنے حلقہ میں مخالفانہ مظاہروں کی قیادت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہاہے۔ بی جے پی اور کانگریس خاموش ہے۔
الیکشن اور ریاسی درجہ کی بحالی کے تعلق سے باتیں تو کی جارہی ہے ، بیانات بھی سامنے آرہے ہیں اور عوام کو کچھ نئی یقین دہانیاں بھی دی جارہی ہیں لیکن حیرت تو اس بات پر ہے کہ ان بیانات میںالیکشن کے بعد منتخب ہونے والی حکومت کو حاصل اختیارات اور قانون سازی کے حوالہ سے ایک حرف بھی زبان پر نہیں لایا جارہا ہے۔ فی الوقت اختیارات اور قانون سازی کے حوالہ سے سارے اختیارات وزارت داخلہ کی تفویض میںہیں۔ آنے والے کل جب بھی الیکشن ہوتے ہیں اور حکومت معرض وجود میں آتی ہے تو اس حکومت کی حیثیت محض رسمی لنگڑی بلکہ بیساکھیوں کے سہارے ہوگی۔ کیونکہ تمام اختیارات اور فیصلے دہلی کے پاس ہیں۔ نئی تشکیل پانے والی حکومت کے حد اختیار میں درجہ چہارم کے ملازم کی تقرری اور تبادلے تک کا اختیار حاصل نہیں ہوگا۔
اختیارات کے حوالہ سے سبھی پارٹیاں خاموش ہیں، اس خاموشی کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ممکنات میں ہے کہ کسی کو یہ گارنٹی حاصل نہیں کہ الیکشن میں لوگوں کا ووٹ کلی یا جزوی طور سے کس کے حق میں ہوگا ، حکومت کی تشکیل کے حوالہ سے منظرنامہ کیا کچھ اُبھر کرسامنے آئے گا، کشمیرکے حوالہ سے یہ بات تو پتھر کی لکیر ہے کہ کشمیر کاووٹ تقسیم درتقسیم ہوچکا ہے اور وہ مختلف خانوں کی نذر بھی ہوچکا ہے۔ یہ ووٹ اس قدر کمزور ہوچکا ہے کہ جس کی کشمیر کی الیکٹورل نقشے میں نظیر نہیں ملتی۔
جہاں تک جموں کا تعلق ہے جموں کاووٹ بھی تقسیم ہورہاہے۔ کچھ سیاسی حلقے بشمول چودھری لال سنگھ مختلف سرکاری اقدامات کی مخالفت کی آڑ میں جموں کی کشمیر سے علیحدگی کی تحریک منظم بھی کررہاہے اور اس تحریک کی قیادت بھی کررہاہے۔ وہ واضح طور سے اور دوٹوک الفاظ میں ’جموں‘ پر مشتمل ایک علیحدہ سٹیٹ کی تشکیل کا مطالبہ کررہاہے۔ جموں وکشمیر میں موجود اور سرگرم ’’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘‘ کا سرغنہ چودھری کو ٹھہرایا جاسکتاہے ۔ جو فرقہ پرستی، مذہبی جنونیت، علاقہ پرستی اور نسل پرستی سے عبارت اپنی سیاسی دکان کو سجا رہا ہے۔
اس حوالہ سے یہ بات واقعی باعث تعجب ہے کہ ملکی سطح پر حکومتی ذمہ دار اور قوم پرست سیاستدان آئے روز ٹکڑے ٹکڑے گینگوں کا حوالہ دے کر عوام کی توجہ ان قوم دُشمن عناصر کی طرف اس اپیل اور تلقین کے ساتھ مرکوز کرارہے ہیں کہ ان کی سرکوبی ملک کے وسیع ترمفادات میں ناگزیر بن چکی ہے بلکہ اس حوالہ سے سرگرم کچھ عنصر کی پکڑ دھکڑ بھی ہوتی رہتی ہے لیکن جموں وکشمیر میں سرگرم اس ٹکڑے ٹکڑے گینگ کے خلاف زرہ بھر بھی تادیبی کارروائی نہیں کی جارہی ہے۔ غالباً وجہ یا مصلحت یہ دکھائی دے رہی ہے کہ آنے والے کل میںاگر لال سنگھ’’سلطان کٹھوعہ ‘‘ کے طور اُبھر کرسامنے آجائے تو اس کے ساتھ کسی مفاہمت نامہ پر دستخط کرنے کا راستہ ہموار رہے۔
ظاہری لینڈ سکیپ اور طبیاتی میلانات جہاں تک بدلتے سیاسی رجحانات، نظریات اور ترجیحات کا تعلق ہے سے جو کچھ بھی محسوس کیاجارہاہے اور جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے اس کے بارے میں مختصر طور سے یہی کہاجاسکتا ہے کہ یہ محسوسات اور نظر کا دھوکہ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ کشمیر کا مزاج اور نفسیات کا جہاں تک تعلق ہے اس حوالہ سے ماہرین بھی کچھ قطعیت کے ساتھ کہنے سے بار بار معذر ت طلب کرچکے ہیں ۔ آنے والے کل میں جب الیکشن کا مرحلہ سامنے ہوگا تو اُس وقت ووٹ کا حقدار کون ٹھہر پائے گا ووٹ ڈالنے والا خود اس کی وجہ بتانے سے قاصر ہوگا۔
اس تناظرمیں مرکزی وزیر داخلہ کا اگلے روز یہ بیان کہ آنے والے الیکشن میں ایک نئی قیادت اُبھر کرسامنے آئے گی کو محض خیالی تصور نہیں کیاجاسکتاہے ۔ وزیر داخلہ کے مطابق یہ نئی قیادت حالیہ برسوں میںلوکل سیلف گورنمنٹ اداروں کیلئے ہوئے انتخابات میں جو لوگ کامیاب ہوئے ہیں انہی میں سے بحیثیت لیڈر نئی قیادت کے روپ میں اُبھر کرسامنے آئیں گے۔ وزیرداخلہ کا یہ بیان ایک واضح پیغام بھی ہے ان لوگوں کیلئے جو روایتی سیاست کے ساتھ ابھی بھی اپنا چولی کا دامن بنائے رکھے ہوئے ہیں۔
بہرحال کشمیراور جموں کے سیاسی منظرنامہ پر جو بھی پارٹیاں اور سیاستدان موجود اور سرگرم ہیں ان کیلئے یہ غور طلب اور توجہ طلب بھی ہے کہ الیکشن کے بعد وہ جس اسمبلی اور حکومت کو دیکھنا چاہتے ہیں وہ کیجریوال کی سی قیادت میں دہلی کی اسمبلی اور حکومت کے مشابہ چاہتے ہیں یا بااختیار اور فیصلہ ساز اسمبلی اور حکومت!