پیر, مئی 12, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

راہل یاترا ، مگر سوالات بدستور اپنی جگہ

کشمیرمیں جمہوریت کے جنازہ کو کاندھا کانگریس نے ہی دیا

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2023-02-02
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا ۳۰؍جنوری کو سرینگرمیں آخری ریلی کے انعقاد کے ساتھ ختم ہو گئی۔ کشمیر میں ریلی کے داخل ہوتے ہی لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نے اس کاخیر مقدم بھی کیا اور ریلی کے ساتھ کچھ دور تک سفر بھی کیا۔ کانگریس کی قیادت نے کشمیر کے حوالہ سے ریلی کو کامیاب قراردیا جبکہ کانگریس کی اپوزیشن باالخصوص حکمران جماعت بی جے پی کی قیادت نے ریلی اور کشمیر کے حوالہ سے کئی ایک سوالات کئے ہیں خاص کر اس تعلق سے کہ اگر حکومت نے کشمیر میں انٹی ملی ٹنسی اقدامات نہ کئے ہوتے تو راہل گاندھی گھنٹہ گھر لال چوک میںترنگا لہرانے کی جرأت نہ کرتے۔ اس حوالہ سے راہل گاندھی اور کانگریس قیادت کو وزیراعظم نریندرمودی کا شکر گذار ہونا چاہئے۔
جتنے منہ اُتنی ہی باتیں، ہر ایک کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے، کانگریس کی ریلی کشمیر کے حوالہ سے کامیاب رہی، آنے والے دنوں میں کس حد تک ثمر آور ثابت ہوگی اُس کا انتظار رہے گا البتہ کچھ تیکھے سوال ضرور ہیں جن کا جواب کانگریس قیادت باالخصوص راہل گاندھی نے دینے سے گریز کیا ہے۔
بھارت جوڑو یاترا کے اعلان کے ساتھ ہی جموںوکشمیر کی کانگریس قیادت یہ دعویٰ کرتی رہی کہ یاترا کے دوران کشمیرآمد پر ریاستی درجہ کی بحالی اور اسمبلی الیکشن کے انعقاد کا مطالبہ شدت سے کیاجائے گا۔ اس حوالہ سے ہمارا پہلے دن سے یہ موقف تھااور ہے کہ یاترا کے بُنیادی مقاصد اور ایجنڈا کے تناظرمیں مقامی کانگریس قیادت کے ان دونوں مطالبات کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی یہ دو مطالبات کسی بھی حوالہ سے یاترا سے کوئی مطابقت رکھتے ہیں۔بے شک راہل گاندھی نے ان دونوں مطالبات کا اعادہ کیا اور ساتھ ہی جموں وکشمیر میں جمہوریت کی بحالی کی بھی مانگ کی۔ لیکن اوسط شہری ان مطالبات سے مطمئن نہیں ہوا اور سوال کررہے ہیں کہ راہل نے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے فیصلوں کے تناظرمیں آئینی دفعات باالخصوص دفعہ ۳۷۰؍ کی بحالی وغیرہ کے بارے میںکوئی بات کیوں نہیں کی۔
جو لوگ یہ سوال کررہے ہیں اور راہل گاندھی سے گلہ کررہے ہیں یا تو وہ سادہ لوح ہیں یا جموں وکشمیرمیں ۱۹۵۲ء کے بعد سے حکومتی تشکیل ، آئینی اور غیر آئینی اقدامات اور عہد شکنیوں کے معاملات سے آشنا نہیں یااگرآشنائی رکھتے ہیں تو کسی اندھی محبت میں مبتلا ہوکر اور دانستہ طور سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔راہل گاندھی یا کانگریس کی قیادت کس منہ سے دفعہ ۳۷۰؍ کی بحالی کی بات کرے گی جبکہ خود کانگریس کی حکومتوں نے آنجہانی جواہر لال نہرو اور اس کے بعد کی حکومتی جانشینوں نے اس دفعہ کو اندر ہی اندر سے اس قدر کھوکھلا بنادیا کہ یہ دفعہ بس آئین میں ٹائٹل تک محدود اور ظاہری طور سے محض کاغذ کا ایک ناکارہ پرزہ رہ گئی۔
دن کے اُجالوں میں سنہرے سپنے دیکھنے والوں کے لئے یہ بتادینا غالباً کافی ہے کہ اگر کانگریس کے وزیراعظم نرسمہا رائو نے اپنے اعلان ’آسمان کی حد تک ‘ اور وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے اپنے قائم کردہ پانچ ورکنگ گروپوں کی سفارشات کے ساتھ ساتھ پڈگائونکر کی قیادت میں سہ رکنی ٹیم کی شفارشات کو عملی جامہ پہنالیاہوتا تو آج جموں وکشمیر وہ نہ ہوتا جونظرمیں آرہاہے۔آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو نے مرحوم شیخ محمدعبداللہ کے ساتھ ’دوستی ‘ کی آڑمیں ہمالیائی عہد شکنی نہ کی ہوتی اور خود اپنی قیادت میں دفعہ ۳۷۰؍ ایسی آئینی ضمانتوں کا اندراج آئین میں یقینی بنانے کے بعد ان ضمانتوں کو اپنی مکمل ریاکاری اور سیاسی بددیانتی کے ساتھ مختلف طریقوں او رحربوں کو بروئے کار لاکر اندر ہی اندر ختم یا کمزور کرنے کاراستہ اختیار نہ کیاہوتا تو ۱۹۸۹ء کا لہو رنگ کشمیر اُبھر کر آج اوسط کشمیری کیلئے سوہان روح نہ بنا ہوتا۔
ہم کشمیری بحیثیت مجموعی راہل گاندھی کے بے حد مشکور ہیں کہ انہوںنے یاترا کے آخر پر جموںوکشمیر میں جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ یہ دوسری بات ہے کہ جمہوریت کی اصل تشریح، مفہوم وغیرہ کیا ہے۔ پھر بھی یہ فرض کرلیتے ہیں کہ جموںوکشمیر میں فی الوقت جمہوریت نہیں ہے اور اس تناظرمیں جمہوریت کی بحالی کی مانگ واجبی ہے۔ لیکن لے دے کے پھر سوال یہی ہے کہ جموں وکشمیر میں جمہوریت تھی ہی کب؟
۱۹۵۲ء میں شیخ محمدعبداللہ کو اقتدار سے بے دخل کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے سالہاسال تک ڈالدیا گیا، شیخ محمدعبداللہ کو اپنا چھٹا کلمہ قرار دینے والے بخشی غلام محمد کو تخت پر بٹھایاگیا اور ۱۱؍سال تک بخشی اینڈ کورپٹ، بدعنوان اور لٹیرا کمپنی کشمیریوں کو تخت مشق بناتا رہا، فرضی واقعات اور جھوٹے اور سازشی کیس مرتب کرکے لوگوں کو جیلوں میں ڈالا جاتا رہا، الیکشن کے نام پر لوگوں کے ساتھ جو فراڑ کھیلے گئے اس کی نظیر دُنیا کے ان معاشروں اور ملکوں سے بھی نہیں ملتی جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جاہل اور بدمعاش خصلت کے حامل ہیں۔ خود شیخ محمدعبداللہ کو نام نہاد حضرت بل سازش کیس کا سرغنہ جتلا کر مقدمہ چلایاگیا، اُس دور کے پولیس نے سینکڑوں لوگوں بشمول اُس دور کے چند صحافیوں کی خدمات حاصل کرکے نا م نہاد سازش کیس میں بطور گواہ پیش کیا، لیکن بالآخر کیس واپس لیاگیا۔ کشمیرمیں جمہوریت کا قتل حقیقت میں کانگریس کے دورمیں کیاگیا لیکن بحالی کا مطالبہ آج کیا جارہاہے جب کشمیرامن کے مراحل سے گذررہاہے اور تھوڑا بہت استحکام کے آثار مطلع پر نظرآرہے ہیں۔
بہرحال یہ صحیح ہے کہ یاترا کے مختلف پڑائوں کے دوران لوگوں نے راہل کا خیرمقدم بھی کیا، ان سے بہت ساری توقعات بھی وابستہ کیں، بے روزگاری، زمین اور نوکریوں کا معاملہ کے ساتھ ساتھ معاشرے کو درپیش کئی دوسرے سنگین اور حساس معاملات پر بات کی، لوگ بات کرتے ہیں، اپنے محسوسات ،خواہشات اور ضرورتوں کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے توقعات اور اُمیدوں کے پل بھی باندھتے ہیں،ا س کی خاص اور اہم وجہ یہ ہے کہ لوگ محسوس کررہے ہیں اور مشاہدہ میں بھی یہی آیا ہے کہ لوگوں کو رسائی حاصل نہیںہے اور جن تک رسائی درکار ہے وہ لوگوں کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے اور ان سے بات کرنے کو اپنی ترجیح نہیںسمجھتے جبکہ وہ مقامی خواہشات اور ضرورتوں کا کوئی بھی فہم و ادراک بھی نہیں رکھتے۔ یہ خامی یا کوتاہی حکومت کی ہے اور اگر حکومت اس اہم اشو بلکہ عوام کے ساتھ راست رابطہ کو اہمیت اور ترجیح دیتی تو لوگ راہل کو اپنے معاملات اور خواہشات کے تعلق سے ایڈریس کرنے کی ضرورت نہ سمجھتے۔
اس میں بین السطور حکومت کیلئے پیغام پوشیدہ ہے وہ یہ کہ ایڈمنسٹریشن باالخصوص ان اداروں جن کا تعلق براہ راست عوامی خدمات سے ہے کو فعال اور متحرک بنانے کی سمت میں قدم اُٹھائے تاکہ لوگوں اور ایڈمنسٹریشن کے درمیان کارگر اور فعال رابطہ کی راہیں استوار ہوسکیں۔

 

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

بجٹ اورہم

Next Post

بابر اعظم کی ون ڈے فارمیٹ میں پہلی پوزیشن برقرار

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
بابر اعظم کے ون ڈے کرکٹ میں۴ ہزار رنز مکمل

بابر اعظم کی ون ڈے فارمیٹ میں پہلی پوزیشن برقرار

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.