کشمیر میں ہندوستان کا کوئی ولن نہیں البتہ ہندوستان کے کئی ایک علاقوں میں کشمیر کو لے کر کئی عنصراورادارے ایسے ہیں جو ولن کا کرداراداکررہے ہیں۔ یہ عنصر اور ادارے کون ہیں، ان کے چہرے اور شناخت پوشیدہ نہیں ہے فرق صرف یہ ہے کہ ان کی ظاہری شناخت کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے بلکہ عموماً یہ دیکھا بھی گیا ہے اور محسوس بھی کیا جاتا رہا ہے کہ ایسے عنصر اور اداروں کی پشت پناہی کی جارہی ہے۔یہ پشت پناہی نہ کی جاتی تو کشمیریوں کے خلاف چیرہ دستیوں، ایذا رسانی ، پروفائیلنگ ، ہجومی تشدد، ماردھاڑ ایسے بیمانہ اور سفاکیت سے عبارت معاملات سامنے نہ آتے۔ بار بار یہ مطالبہ کرنے پر کشمیر مجبور نہ ہوتا کہ اعلیٰ حکومتی سطح پر ایسے دلخراش اور اب بہت حد تک سوہان روح بنے ایسے معاملات کی روک تھام کیلئے مناسب اقدامات کئے جائیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے حوالہ سے حالیہ چند ایام میں دو دلخراش معاملات سامنے آئے ہیں۔ ایک کا تعلق زیر تعلیم سکالرکی اس درخواست کہ شور وغل کو ذرا دھیما کیاجائے لیکن مخاطبین مثبت اور ہمدردانہ ردعمل دکھاتے انہوںنے بیرونی عنصر سے مل کر کشمیری مسلمان طالب علموں کو اپنی مجرمانہ ذہنیت اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ معاملے کے تعلق سے ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے ، لیکن پولیس کے اس دعویٰ کی تصدیق تو درکنار کسی حملہ آور شخص یا اشخاص کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی کی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں۔
ابھی اس واقعہ کی صدائے بازگشت سنی ہی دے رہی تھی کہ علی گڑھ پولیس کی جانب سے ریاست کے تمام تعلیمی اور پیشہ ور اداروں میں زیر تعلیم اور زیر تربیت کشمیری مسلمان طالب علموں کا شجرہ نسب اداروں جہاں وہ تعلیم وتربیت حاصل کررہے ہیں کو ہدایت دی گئی کہ وہ فوری طور سے پویس کے پاس جمع کرائیں یہ حکم نامہ پولیس کی طرف سے کیوں جاری کیاگیا اور اس کے پیچھے کون سی سیاسی جاہلیت یا کون سانسلی تعصب ، فرقہ وارانہ عصبیت یا مذہبی جنون کارفرما رہاہے وہ معلوم تو نہیں البتہ کشمیر میں بحیثیت مجموعی ملک کے مختلف حصوں میں پیش آرہے اس نوعیت کے روح فرسا، تکلیف دہ اور دلخراش واقعات کا زبردست منفی ردعمل سڑکوں پر تو نظر نہیں آرہاہے البتہ اندر ہی اندر کئی سوالات کا موجب بن کر آتش فشان بنتا ضرور محسوس کیاجارہاہے۔
یہ سب کچھ اُس ہندوستان میں ہورہاہے جس ہندوستان نے مہاتما گاندھی کی قیادت میں جنوبی افریقہ کی نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کی اور لڑائی لڑی، یہ اُس ہندوستان میں ہورہاہے جس نے نیلسن منڈیلا کی اخلاقی اور سیاسی حمایت کااعلان اور عملی مظاہرہ کرکے جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت اور نسل پرستی کے خلاف آواز بلند کی۔ اس نوعیت کے واقعات ملک میں ایک ایسے وقت میں پیش آرہے ہیں جب ملک کا وزیراعظم اپنے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس ‘ کے مشن کو آگے بڑھانے اور سماج کے ہر طبقے کے تعلق سے اس مشن میں عملی تعاون دینے کی جہد مسلسل میں کوشاں ہے۔
اُتر پردیش کی پولیس وزیراعظم کے اس مخصوص مشن کو اپنے منفی اور جنون پرستی سے عبارت کردار کو عملی جامہ پہنانے کی دوڑ میں نہ صرف ناکام بنا رہی ہے بلکہ خود کو ملک میں نسلی عصبیت کی روح رواں اور علمبردار کے طور پر بھی جھنڈے گاڑتی جارہی ہے ۔ کشمیر میں منفی ردعمل سڑکوں پر اس لئے نظرنہیں آرہاہے کیونکہ کشمیر فطرتی اور بُنیادی طور سے امن پرست اور امن پسند ہیں جبکہ کسی بھی نوعیت کی فرقہ وارانہ عصبیت یا نسل پرستی سے عبارت کسی بھی طرح کے جنون میں مبتلا نہیں ۔ا لبتہ کچھ سوال ضرور ان کے لئے پریشان کن ہیں۔ کشمیرکے بچے درس وتدریس وتربیت کے لئے ملک کے ان اعلیٰ تعلیمی اداروں کارُخ کرتے ہیں، والدین کی عرق ریزی اداروں کے منتظمین کے حوالہ کرکے تعلیم وتربیت کا صلہ اداکررہے ہیں، بُنیادی مقصد اور مشن یہی ہے کہ پڑھ لکھ کر بچے قوم وملک کی ترقی، امن اور استحکام میں مستقبل کے معماروں کی حیثیت میں کرداراداکرنے کے قابل بن سکیں۔ لیکن ان بچوں کی حوصلہ افزائی کرنے اور ان کی کاوشوں کو مزید حوصہ عطاکرنے کی بجائے بعض سماج دشمن ذہنیت کے حامل عنصر اور ادارے انہیں اپنی نسل پرستی اور اپنی عصبیت کانشانہ بنانے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں۔ ایسا کرکے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ملک کے وسیع ترین مفاد میں اس راستے پر گامزن ہوکروہ ملک کی ترقی، امن اور استحکام کے حوالہ سے کس نوعیت کے بیج بوتے جارہے ہیں۔
بے شک امن وامان اور سکیورٹی کے تعلق سے پولیس اور اداروں کا ایک اہم ترین رول بھی ہے اور ذمہ داری بھی، اس راہ میں حائل ہونے کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن آبادی کے ایک حصے کو مذہب، شناخت اور فرقہ کی بُنیاد پر ’پرو فائیلنگ‘ راستہ اختیار کرنا اُس مخصوص ذہنیت کو واضح کررہاہے جس کے بطن سے ہجومی تشدد، نفرت، فرقہ واریت ایسے کیڑے اور جراثوم پیدا ہوکر سماج ہی کا ایک حصہ بن جاتے ہیں۔ اس حوالہ سے جو حکم نامہ علی گڑھ کے ایس پی نے جاری کیاتھا، کیا ایسا اُس نے اپنی طرف سے کیا تھا یا بحیثیت مجموعی یو پی پولیس کا فیصلہ تھا۔
بہرحال اب جبکہ یہ مخصوص حکم نامہ واپس لیاگیا ہے جس کا خیر مقدم کیاجانا چاہئے لیکن مستقبل میںایسے ناپسندیدہ اور کشمیر دُشمن اقدامات اور واقعات کو سامنے نہیں آنے دیاجائے گا اس کیلئے مرکزی سطح پر حکومت اقدامات اُٹھائے تو زیادہ نتیجہ خیز اور موثر ثابت ہوسکتے ہیں جبکہ کشمیرمیں مرکز کی مداخلت سے راحت اور اطمینان کی ایک نئی لہر دوڑ تی محسوس کی جائیگی۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے منتظمین کی بھی یہ اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ ادارے میں زیرتعلیم کشمیری بچوں کا تحفظ ہی یقینی نہ بنائیں بلکہ تعلیم وتربیت کے تعلق سے انہیں خوشگوار ماحول بھی میسر رکھے۔ البتہ اگر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے منتظمین کسی دبائو یا کسی اندھی مصلحت کے پیش نظر ایسانہیں کرسکتے تو پھر واحد علاج یہی ہے کہ یونیورسٹی میںداخلہ کوکشمیری طالب علموں کیلئے شجر ممنوع قرار دے ۔ ان کے اس اقدام سے کشمیر کا سرمایہ بھی کشمیرمیں ہی رہے گا اور کشمیری طالب بھی ہجومی تشدد سے محفوظ رہ پائیںگے۔