مذہبی منافرت، دُشمنی ، عدم رواداری، فکری اور ہجومی جنون، کھانے پینے اور لباس پر اعتراضات اور نعرے بازی…‘ اور بھی بہت کچھ‘ یہ روح فرسا اور تکلیف دہ واقعات اور آبادی کے مختلف طبقوں کی جانب سے معمولی آہٹ پر تصادم اور سب سے بڑھ کر فرقہ واریت کا جنون اور ان سب کے حوالہ سے تقویت پاتا جارہا رجحان ہندوستان کی صدیوں سے چلی آرہی ہم آہنگی، یگانگت اور باہمی اخوت کے ساتھ ساتھ گنگا جمنی تہذیب بلکہ اس نظریاتی بُنیاد کو بڑی تیزی کے ساتھ دیمک کی طرح چاٹ کر ملک کے اندرونی تانے بانے کو تہہ وبالاکرتا جارہاہے۔
یہ مخصوص منظرنامہ ملک کے حساس ، ذمہ دار اور روادار حلقوں کے لئے باعث تکلیف بنا ہوا ہے۔ اس مذہبی منافرت، دُشمنی اور عدم رواداری کے جنون میںکوئی ایک مخصوص فرقہ ملوث نہیں بلکہ جس کسی کی جہاں کہیں اکثریت اور غلبہ ہے وہ اس منافرت اور جنون کے اندھے گھوڑوں پر سوار ہو کر اپنے ایجنڈ اور اپنے اختراعی جو صرف اور صرف جنون پر مبنی ہے کو آگے بڑھانے کے راستے پر گامز ن ہے۔
لیکن اس روح فرسا اور دلخراش منظرنامے کی ناقابل برداشت بن رہی ٹیس اور معاشی چھبن محسوس کرتے ہوئے اب کچھ سطحوں پر حرکت نظرآرہی ہے۔ اس بات کو شدت سے محسوس کیاجارہاہے کہ جنون اور ہجومی تشدد اور عدم رواداری کے یہ کیڑے سرائیت کرتے رہے تو وہ مضبوط اور زمین کے اندر گہرائیوں تک مستحکم درخت کے زیادہ دیر کھوکھلا ہوکر زمین بوس ہونے میں زیادہ وقت درکار نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ سرائیت کرتے جارہے ان کیڑوں کا ابھی سے قلع قمع کرنا اب ناگزیر بن رہاہے۔
مختلف مذاہب سے وابستہ لیڈر شپ جہاں انفرادی طور سے ان حالات اور واقعات سے فکر وتشویش اور اضطراب میں مبتلا ہے وہیں اجتماعی سطح پر بھی اب مثبت حرکت نظرآرہی ہے۔ اس حوالہ سے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈول نے دہلی میں چند روز قبل ایک بین المذہبی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جن خیالات اور تشویشات کااظہار کیا ہے حساس حلقے ان خیالات کو برقت خیال کرتے ہوئے اس اُمید اور یقین کا اظہا ر کررہے ہیں کہ اجیت ڈول ایسے حکومتی ذمہ دار شخصیات اس ضمن میں اپنی کائوشوں کو ہر سطح پر جاری رکھیں گے تاکہ دُشمنی اور عداوت کا یہ طوفان تھم سکے۔
اجیت ڈول کے یہ خیالات کہ ’’کچھ لوگ ایسے ہیں جو مذہب اور نظریے کے نام پر دُشمنی پیدا کرتے ہیں جس سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے جس کا مقابلہ کرنے کیلئے مذہبی راہنمائوں کو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ غلط فہمیوں کو دور کرنے اور ہر مذہبی ادارے کو ہندوستان کا حصہ محسوس کرنے کی کوششوں کی ضرورت ہے۔ ہم خاموش تماشائی نہیں بن سکتے‘‘۔
بلاشبہ مذہبی لیڈروں کا ایک اہم بلکہ کلیدی رول ہے لیکن سیاسی سطح پر جس مخصوص اور منظم طریقے پر مذہبی منافرت، عدم رواداری، ہجومی تشدد کی حوصلہ افزائی کا رجحان پروان چڑھتا جارہاہے اصل فتنہ کی جڑ تو وہی ہے۔ یہ کوئی پوشیدہ امر نہیں کہ ملک کے بعض مخصوص حصوں میں اسی سے عبارت منظرنامے کو جلا بخشی جارہی ہے۔ ہریانہ، اترپردیش، مدھیہ پردیش، کیرلا،کرناٹک ، آسام محض چند ایک ہیں۔ منافرت اور تشدد سے عبارت سیاسی شخصیات کے بیانات سے جو آگ چاروں اطراف لگ جاتی ہے آبادی کے مختلف فرقوں سے وابستہ مذہبی قیادت کے بس کی یہ بات نہیں کہ وہ ایسے آگ کے شعلوں کو بجھا پائیں۔پھر غیر ذمہ دار ہاتھوں سے سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال جلتی پر تیل چھڑکنے کے برابر ہے۔
اسی امر کو غالباً محسو س کرتے ہوئے بین المذہبی کانفرنس کے مندوبین نے ایک قرارداد میں وزیراعظم نریندرمودی اوران کی قیادت میںمرکز ی حکومت سے مطالبہ کیاگیا ہے کہ حکومت’’مذاہب اور پیروکاروں کے خلاف نفرت پھیلانے کیلئے سوشل میڈیا کے استعمال کی وبا کو روک لیں جبکہ کسی کی بھی طرف سے مباحثوں میں دیوتائوں؍پیغمبروں کو نشانہ بنانے کی مذمت کی جانی چاہئے‘‘۔
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے بھی اپنے ایک حالیہ ریمارکس میںیہ واضح کردیا کہ ایک خاتون کی زبان درازی نے پورے ملک کو آگ کے شعلوں کی نذر کردیاہے۔جبکہ کچھ ممالک میں اس خاتون کی طرف سے اہانت آمیز زبان کاسخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ اس خاتون کی مذمت کرنے والوں کی دھڑ پکڑ تو کی گئی لیکن خاتون کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی گئی۔ یہی تضاد ہجومی تشدد کی ذہنیت کے حامل عدم روادارعنصر کی حوصلہ افزائی کاموجب بن رہاہے۔
بہرحال قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈول نے کانفرنس سے خطاب کے دوران جن باتوں کی طرف واضح اشارہ کیا ہے ان میں خاص طور سے یہ قابل ذکر بھی ہے اور قابل غور وتوجہ بھی کہ ’ہرمذہبی ادارے کو ہندوستان کا حصہ محسوس کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔یہ بات ان عنصروں کیلئے واضح پیغام ہے جو مذہبی منافرت اور مذہب کے نام پر تشدد رواد رکھنے کے حامل ہیں۔
اس مخصوص پیغام کو عوام تک پوری شدت کے ساتھ پہنچانے کی ضرورت تھی اور اب بھی ہے لیکن یہ مذہبی لیڈروں کے اکیلے کاکام نہیں ۔ سیاسی لیڈر شپ کیلئے بھی لازم ہے کہ وہ اس سمت میں اپنا مثبت کرداراداکرے۔ اس بات کو بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ منافرت سے آمیز فضا پر وان چڑھتی رہی تو ملک کی وحداور سالمیت کے دُشمنوں کو موقعہ ملتا رہے گا کہ وہ اس فضاکو بطور آکسیجن استعمال کریں۔