پیر کی شام کو سرینگر اور وادی کے کچھ دوسرے میدانی علاقوں میں بارشوں نے جہاں خشک سالی کے ایک طویل دورانیہ کو ختم کیا وہیں لوگوں کو جھلستی دھوپ اور گرمی سے تھوڑی راحت بھی نصیب ہو ئی ۔حالانکہ بارشیں زیادہ دیر تک جاری نہیں رہیں لیکن اتنا ضرور ہوا کہ موسم میں ایک خوشگوار تبدیلی دیکھنے میں آئی اور پیر اور منگل کی رات کو درجہ حرارت میں کمی ہو ئی جس سے لوگوں کو تھوڑا سکون میسر ہوا ۔
پچھلے ہفتے سرینگر میں گرمی کا ۷۰ سالہ ریکارڑ ٹو ٹ گیا جب دن کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت ۴ء۳۷ ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا ۔جھلستی دھوپ اور گرمی نے لوگوں کو بے چین کردیا تھا ۔محکمہ موسمیات کاکہنا ہے کہ وادی میں اب آئندہ کچھ دنوں تک مطلع مجموعی طور پر ابر آلود رہے گا اور اس بیچ میں ہلکی بارشوں کا بھی امکان ہے ۔
پیر کی شام کو جب موسلادھار بارشیں ہورہی تھیں تو شہر کے کچھ دوسرے علاقے زیر آب آگئے جن میں لالچوک بھی شامل ہے اور لوگوں نے سوال کیا کہ کیا یہی سمارٹ سٹی ہے کہ ایک آدھ گھنٹے کی بارشوں سے ہی سڑکیں زیر آب آگئیں ۔
بارشوں کے دوران شہر خاص کر لالچوک کا زیر آب ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔یہ ایک پرانا مسئلہ ہے جس کا ابھی تک کوئی موثر حل تلاش نہیں کیا گیا ہے ۔ لیکن یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ بارشوں کے بعد سڑکوں اور رہائشی علاقوں کا زیر آب ہونا ایسی کوئی انوکھی بات نہیںہے جو صرف سرینگر شہر تک محدود ہے ۔ ملک کے دوسرے بڑے شہروں کو بھی یہ مسئلہ درپیش ہے ۔
ممبئی جیسا بڑا شہر بھی بارشوں کے پانیوں سے اس قدر زیر آب آجاتا ہے کہ عام زندگی متاثر ہو جاتی ہے ۔اس لئے سرینگر یا جموں کشمیر کے کچھ علاقوں یا سڑکوں کا بارشوں کے دوران زیر آب ہو نا کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے ۔ ہاں البتہ اتنا ضرور ہے کہ سرینگر میں سمارٹ سیٹی پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد لوگ امید کررہے تھے کہ شہر بشمول لالچوک میں بارشوں کے بعد پانی کا جمع ہو نا قصبہ پارینہ بن جائیگا ‘ لوگ اس پروجیکٹ کے تحت نکاس آب کے بہتر انتظام کی توقع کررہے تھے ‘ لیکن ایسا نہیں ہوا اور آج بھی شہر بارشوں کے پانی میںڈبکیاں لگاتا ہے ۔
یہ صورتحال نہ صرف نکاسی آب کے غیر موثر نظام کو اجاگر کرتی ہے بلکہ سیلاب کے خطرات سے نمٹنے کے لیے شہر کی تیاری کے بارے میں بھی سوالات اٹھاتی ہے ، جس نے حالیہ برسوں میں سری نگر کو پریشان کیا ہے۔
تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ سمارٹ سٹی پروجیکٹ ناکام ہو گیا ہے ؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا سمارٹ سٹی پروجیکٹ میں نکاس آب کے مسئلہ کا حل تلاش کرنا بھی شامل تھا ؟کیا پروجیکٹ کے تحت اس مسئلہ کو بھی ایڈریس کیا جانا تھا یا پھر اس پروجیکٹ کی ترجیحات ‘خصوصیات اور ضروریات کچھ اور تھیں ۔
سمارٹ سٹی پروجیکٹ کے تحت، جموں اور سری نگر میں مختلف بنیادی ڈھانچے اور شہری ترقی کے جو منصوبے ہاتھ میں لئے گئے تھے ان کا مقصد سڑکوں اور ٹریفک کی انتظامیہ میں بہتری، عوامی نقل و حمل کے نظام کی بہتربنانا، پیدل چلنے والوں کے لیے دوستانہ جگہوں اور راستوں کی ترقی، ذہین نگرانی اور سیکورٹی کے بنیادی ڈھانچے اور فضلہ منیجمنٹ اور صفائی ستھرائی کے اقدامات پر مرکوز تھی۔
اس پروجیکٹ کی کچھ اور بھی خصوصیات ہیں جن کے تحت سڑکوں کو تنگ کرنا اور فٹ پاتھوں کو چوڑا کرنا شامل ہے ‘لیکن جہاں تک نکاس آب کا مسئلہ ہے یہ ایک بڑا مسئلہ ہے جو سمارٹ سٹی پروجیکٹ کے دائرہ کار میں نہیں آتا ہے ۔یہ مسئلہ صرف شہری علاقوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ قصبوں اور دیہات میں بھی بارشوں کے چند قطروںکے بعد لوگوں کی نقل و حمل متاثر ہو جاتی ہے ۔
اس مسئلہ کو سمارٹ سٹی کی عینک سے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے اس کا حل بھی الگ سے تلاش کرنا ہو گا ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیا اس کو مسئلہ تصور کیا جاتا ہے ۔پیر کی بارشوں کے بعد پانی صرف سڑکوں پر جمع نہیں ہوا بلکہ دکانوں کے اندر بھی گھس گیا اور دکانداروں کا مالی نقصان ہوگیا ۔یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے اب تک کسی دور حکومت میں سنجیدگی سے ایڈریس کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔
ہاں اتنا ضرور ہے کہ جب سمارٹ سٹی پروجیکٹ شروع ہوا تو ایک امید سی جاگ اٹھی کہ شاید اگر کہیں اور نہ سہی لیکن لالچوک جیسے شہر کے مرکزی علاقے کو اس مسئلہ سے نجات مل جائیگی لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ اس پروجیکٹ کی توجہ شہر کی مصنوعی خوبصورتی بڑھانے پر مرکوز تھی‘سنجیدہ مسائل کو حل کرنے پر نہیں ۔
۲۰۱۴ میں سرینگر شہر میں آئے سیلاب کے بعد حکومت ‘ چاہے وہ کسی بھی جماعت کی ہو ‘کو جو سبق سیکھنے چاہئے تھے کیا وہ سیکھے گئے یا سیکھنے کی کوشش کی گئی … لگتا ہے کہ ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔سرینگرجہلم کے دونوں کناروں پر آباد ایک شہر ہے جسے سیلاب کا ایک حقیقی خطرہ ہمیشہ لاحق رہتا ہے ۔لیکن جب شہر کی سڑکیں اور رہائشی علاقے معمولی بارشوں سے ہی زیر آب آجاتے ہیں تو اس سے یہ حقیقت بے نقاب ہو جاتی ہے کہ ہماری تیاری کس سطح کی ہے ۔
سیلاب ایک بڑا مسئلہ ہے جب آجاتا ہے تو اس کے سامنے بڑی بڑی تیاری بھی اپنے ہاتھ کھڑا کر دیتی ہے ‘لیکن نکاس آب جیسا چھوٹا مسئلہ تو حل ہو سکتا ہے ‘ اسے تو حل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے اور یہ کوشش ہونی چاہئے ۔