بغداد//
حماس تنظیم نے اپنے دوٹوک موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار ڈالنے پر ہر گز مذاکرات نہیں کرے گی۔
حماس کے ایک نمایاں رہنما محمود مرداوی نے بتایا کہ تنظیم غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے اسرائیلی تجویز کا جواب تیار کر رہی ہے۔
مرداوی نے واضح کیا کہ تنظیم کا جواب ابھی تک تیاری کے مرحلے میں ہے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ کسی جزوی سمجھوتے کی گنجائش نہیں ہے۔ مزید یہ کہ حماس کے ہتھیار کسی مذاکرات کا موضوع نہیں بنیں گے، اس بات پر فلسطینی گروپوں کا مکمل اتفاق ہے۔دوسری جانب اسرائیلی وزارت عظمی کی پریذیڈنسی کے اعلان کے مطابق حکومت کے سربراہ بنیامین نیتن یاہو نے مذاکرات کاروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے "اقدامات جاری” رکھیں۔
نتین یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ معاملہ مذاکراتی ٹیم اور سیکورٹی ادارے کی قیادت کے ساتھ زیر بحث آیا ہے۔
ادھر غزہ کی پٹی کے شمال میں بیت لاہیا میں سیکڑوں افراد نے بدھ کے روز ایک مظاہرے میں غزہ کی پٹی میں جنگ روکنے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے حماس پر اُن کی حالت زار کی پرواہ نہ کرنے کا الزام عائد کیا، اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے ایسے بینر اٹھا رکھے تھے جن پر مطالبہ کیا گیا تھا کہ سرحدی راستے کھولے جائیں اور خوراک و پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
حماس تنظیم اعلان کر چکی ہے کہ وہ ایک جامع معاہدے پر مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ ایسا معاہدہ جس کے نتیجے میں مستقل جنگ بندی، اسرائیلی فوج کا غزہ کی پٹی سے مکمل انخلا، سرحدی راستوں کا کھولا جانا، تعمیر نو، اور تمام قیدیوں کے لیے ایک باعزت اور سنجیدہ تبادلہ ممکن ہو۔
منگل کے روز حماس کے ایک سینئر عہدے دار نے انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل نے 45 روز کی جنگ بندی کی تجویز دی ہے، جس کے بدلے میں 10 زندہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ اس کے عوض اسرائیل 1231 فلسطینی قیدیوں کو اپنی جیلوں سے رہا کرے گا۔ یہ بات فرانسیسی خبر رساں ایجنسی نے بتائی۔ فلسطینی عہدے دار نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیل انسانی امداد کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دے گا، جو کہ 2 مارچ سے سخت اسرائیلی محاصرے کا شکار ہے۔ ادھر اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی بحران کے خدشات پر مبنی انتباہات بھی جاری کیے گئے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم "ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ غزہ کی پٹی، اسرائیلی فوجی کارروائیوں اور انسانی امداد کے داخلے پر پابندیوں کے باعث "فلسطینیوں اور اُن کی مدد کو آنے والوں کے لیے ایک اجتماعی قبرستان” بن چکی ہے۔
اسی طرح، اقوامِ متحدہ کے انسانی امور کے رابطہ دفتر (OCHA) نے پیر کے روز خبردار کیا تھا کہ غزہ میں انسانی صورت حال "ممکنہ طور پر اب تک کی بدترین” ہے، کیوں کہ محاصرہ اور سرحدی راستوں کی بندش بدستور جاری ہے۔ دفتر کے مطابق، ڈیڑھ ماہ سے کوئی بھی امدادی سامان اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی، جو کہ اب تک کی سب سے طویل بندش ہے۔