کشمیرا ورسیاست کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے، پہلے ادوار کی سیاست، اس کا مزاج، خدوخال، اپروچ اور عمل آوری عوامی خواہشات، احساسات اور جذبات کی ترجمانی سے عبارت ہو ا کرتی لیکن اب کی سیاست، اس کے خدوخال ، اندازفکر و عمل ، عوامی خواہشات کی نمائندگی کے برعکس حصول اقتدار ، تحفظ اقتدار، حصول مراعات، سکیورٹی حصار، خزانہ پر مختلف طریقوں سے بوجھ ڈال کر وہ سب کچھ حاصل کرنے سے مشروط ہے جو کچھ بھی اس اصطلاح میں دُنیا بھر کی لغات میں پڑھنے کو مل رہاہے۔
جنوبی ایشیائی ممالک کے اس خطے میں سیاسی حالات اور سیاسی منظرنامہ سبک رفتاری سے کروٹ لے رہاہے صبح کی خبر شام تک کسی توجہ اور اہمیت کی حامل نہیں رہتی اور نہ شام کی صبح تک!سیاست میںشفافیت ، راست گوئی کا دور ختم ہوچکا ہے اس کی جگہ اب ہرزہ سرائی، طعنہ زنی ، کردارکشی ، گالی گلوچ، جھوٹ ، فریب ، دغا ، ہجومی تشدد، زبان بندی، صاحب اقتدار کی طرف سے طاقت اور اختیارات کا بڑھتانا جائز استعمال، معمول بنتا جارہا ہے۔ تاریخی واقعات اور پیش آمدہ معاملات کا حوالہ ناقابل برداشت بن چکا ہے ، مختلف رنگ وروپ کی ہر سو نمائش ہے، کوئی قومی ترنگا ہاتھ میں لہرائے وہ سب کچھ کرگذرتا ہے جس کو عام فہم زبان میں اخلاقیات اور جذبہ رواداری سے گری ہوئی حرکت کے زمرہ میں شمار کیا جاتا ہے تو کوئی پریس کانفرنس عجلت میں منعقد کرکے اپنے سیاسی مخالفین پر اپنی نظریہ ضرورت اور سیاسی اہداف کے حوالہ سے چولی کے پیچھے کیا ہے سے عبارت اپنے مخالفین پر دل کی ڈھیر ساری بھڑاس نکالنے کی اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا بھر پور مظاہرہ کرتا نظرآرہاہے۔
حالیہ ایام باالخصوص اسمبلی الیکشن اور مابعد تشکیل پاگئی عوامی منڈیٹ کی حامل سرکار اور اپوزیشن کے درمیان کم وبیش ہر اشو پر جس محازآرائی اور ٹکرائو کی فضاکو جنم دے کر عوام پر مسلط کرنے کی بھر پور کوشش کی جارہی ہے و ہ اب عوام کی توجہ اپنی طرف تو مبذول کرہی رہی ہے البتہ کچھ ایک اشوز کے حوالہ سے دونوں فریقین کا طرزعمل اور رویہ مذاق اور مضحکہ خیز بھی تصور کیا جارہا ہے۔ کشمیر اپوزیشن کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ عمر حکومت مرکز میںمودی سرکار کے ساتھ جذبہ مفاہمت، جذبہ اشتراک اور جذبہ تعاون کے ساتھ اپنا تعلق قدم قدم پر کیوں بنائے رکھ رہی ہے۔مرکز ی رہنمائوں کو شال دوشالے پیش کر کے کشمیر کے مفادات کو بھی دائو پر لگارہے ہیں اور ۵؍اگست کے حوالہ سے معاملات کی اس طرح توثیق اور تائید کی جارہی ہے جبکہ ضرورت مزاحمت کی ہے۔ جواب میںحکومتی ذمہ داروں کی طرف سے یہ جواز پیش کیا جارہاہے کہ جموںوکشمیر کے وسیع ترمفادات کاتقاضہ یہ ہے کہ مرکز کے ساتھ محازآرائی کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے جبکہ زمینی حقیقت یہ بھی ہے کہ اب جموں وکشمیر کی حیثیت ریاست کی نہیں بلکہ یوٹی کی ہے اور یوٹی بھی وہ جو ابھی کم سنی میں ہے۔
جموں نشین اپوزیشن بھی کچھ پیچھے نہیں۔ وہ سرکار پر مسلسل الزام لگارہی ہے کہ اس نے عوام سے جووعدے کئے تھے انہیں پورا نہیں کیا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ اس حوالہ سے اس مخصوص اپوزیشن نے یوٹی سرکار پر ایک ہی دن میں وعدہ شکنی کے کئی میزائل داغ دئے جبکہ اُسی مخصوص دن کے دوران حکومت نے کم سے کم اپنے تین وعدوںکو عملی جامہ پہنائے جانے کا اعلان کیا ۔ کشمیر نشین اپوزیشن عمر حکومت پر دیگر معاملات کو ریاستی درجہ کی بحالی کی مانگ پر ترجیح دینے کا طعنہ دے رہی ہے لیکن خود اس مخصوص اشو کے تعلق سے صرف زبانی میزائل داغنے پر اکتفا کررہی ہے جبکہ جموںنشین اپوزیشن اس مخصوص اشو پر اس واضح موقف کا بار بار اعلان کررہی ہے کہ مرکزی قیادت نے ریاستی درجہ کی بحالی کاوقت مقررہ پر بحالی کا وعدہ کررکھاہے لیکن ابھی اس کے لئے وقت موزون نہیں!
وقف ترمیمی بل کے حوالہ سے بھی بلی اور چوہے کا کھیل کھیلا جارہاہے۔ حکومتی اراکین کو اسمبلی میں تین روز تک مسلسل شور شرابا اور ہنگامہ کرنے کو ڈرامہ قرار دیتے ہوئے گھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ اسی دوران مرکزی وزیر انچارج اقلیتی امورات کرن ریجو کی ٹلپ گارڈن میں وزیر اعلیٰ کے ساتھ تصویر کشی کو لے کر بھی وہ سب کچھ کہاجارہاہے جو اپوزیشن کی لغات میں درج ہے۔ اگر چہ وزیر اعلیٰ نے اس ملاقات اور تصویر کو محض ایک اتفاق کے طور پیش کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیاست میں اتفاقیہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ عمر کو چاہئے تھا کہ وہ لفظ حسن اتفاق کی بجائے کہتے کہ ’’ہم مہان نواز ہیں اور مہان بھی وہ جو مرکز میں اہم وزارتی عہد ے پر متمکن ہوکو ٹلپ باغ میں اپنی اوران کی ’’اتفاقیہ موجودگی‘‘ کواز راہ اخلاق نظراندازنہیں کرسکتے بالکل اُسی طرح جس طرح محبوبہ جی بی جے پی کے ساتھ اپنے تین سالہ دوراقتدار کے دوران مرکزی راہنمائوں کے ساتھ بیٹھا کر تی اور فوٹو سیشن منعقد کرکے موقعہ پر موجود کسی صحافی یا نامہ نگار کے استفسار پر گالی کی صورت میں یہ غیر شائستہ اور اخلاقی سے گری بات کہ ’’یہ نوجوان گھروں سے دودھ اور مٹھائیاں خریدنے کیلئے تونہیں نکلے تھے‘‘ قوم کو طعنہ نہ دیتی ۔
بہرحال حکومت بھی دودھ کی دھلی نہیں۔ چھ ماہ کی مدت گذر گئی اور ابھی تک گورننس کے تعلق سے بزنس قوانین اور طریقہ کار کا تعین نہیں ہوپارہاہے۔ عوامی اور سنجیدہ فہم حلقے یہ سوال تو کررہے ہیں کہ کیا اندرون خانہ کسی طرح کی ڈیل کے حوالہ سے معاملات طے کئے جارہے ہیں ؟جن میں قانون ساز اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کیلئے اپوزیشن رکن کی تعیناتی، ۵؍ارکان کی اسمبلی کیلئے مامزدگی ، راجیہ سبھا کیلئے نامزدگی کے حوالہ سے حصہ داری، پنچایتی، بلدیاتی اور ضلع سطحوں پر انتخابی عمل کے حوالہ سے متناسب حصہ داری ایسے معاملات کا حوالہ دیا جارہا ہے۔
فرض کریں کہ کشمیرنشین ساری اپوزیشن اپنے نظریات اورموقف میںمخلص ہے اور یہ ان کا جذبہ خلوص ہی ہے کہ وہ عوام کے وسیع تر مفادات میں حکومت کو قدم قدم پر گھیرنے کی کوشش کررہی ہے، جبکہ جموںنشین اپوزیشن کا سارے معاملات کے حوالہ سے موقف، نظریہ اوراپروچ کسی پوشیدہ کتاب کا ورق نہیں۔ یہ اپوزیشن حکومت کو بھی گھیر رہی ہے اور کشمیرنشین اپوزیشن کو بھی۔ ایسے حالات میں کیا کشمیر اپوزیشن عوام کے ہی وسیع ترمفادات میںمل جل کر کوئی متفقہ روڑمیپ وضع نہیںکرسکتی ؟
کیا ریاستی درجہ کی بحالی کی مانگ حکومت اپنے لئے کررہی ہے، کیا آپس میں متحد ہوکر مرکزی قیادت کے ساتھ معاملات مذاکرات کی وساطت سے طے نہیں کئے جاسکتے ہیں۔ کیا اپوزیشن یہ فر ض کر بیٹھی ہے کہ وہ محازآرائی اور قدم قدم پر مخالفت کا راستہ اختیار کرکے مرکز کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کرسکتی ہے، یایہ راستہ اختیار کرکے وہ اپنے لئے کسی ووٹ بینک کی بُنیاد رکھنے میںکامیاب ہوسکتے ہیں تو یہ تصور محض پانی کا بلبلہ کی ہیت اور حیثیت سے زیادہ نہیں۔ زمینی حقائق کچھ اور ہیں جن کا اعتراف وقت کا تقاضہ ہے۔
قیام امن، کشمیرکے حوالہ سے ترقیاتی عمل کو یقینی بنانے اور تحفظ کی سمت میں ترجیحات اور سیاست کا سرنو جائزہ اب ناگزیر بن چکا ہے۔ آپ سٹیٹ کی طاقت کو چیلنج تو کرسکتے ہیں لیکن ٹکرائو کا راستہ اختیار کرکے سر پھوڑنے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے؟