کیا جموں وکشمیر میں اختیارات اور فیصلہ سازی کے حوالہ سے ’’ جنگ کا بغل بج‘‘ گیا ہے ؟ اسمبلی الیکشن کے انعقاد کے بعد حکومت کی تشکیل کو ہوئے ابھی محض چند ہی مہینے ہو گذرے ہیں، اس مدت کے دوران کئی بار دوہرے گورننس کے حوالہ سے سوالات کئے جاتے رہے ہیں لیکن راج بھون اور سیکریٹریٹ کے درمیان بادی النظرمیں کوئی بڑا اختلاف منظرعام پر نہیں آیا، اندرون خانہ اُبھر اہوگا تو ممکن ہے لیکن ماسوائے بعض اپوزیشن ارکان اور پارٹیوں کی طعنہ زنی کے اور کچھ خبرونظرمیں نہیں۔
اختیارات اور فیصلہ سازی کے حوالہ سے حدود طے کرنے کیلئے ایک مسودہ فی الوقت مرکزی وزارت داخلہ کے پاس ہے جس پر فیصلے کا انتظار ہے ۔ البتہ گذرے چند مہینوں کے دوران انتظامیہ میں کئی بار تبادلوں کے احکامات صادر کئے جاتے رہے ہیں، جو کچھ لیفٹیننٹ گورنر کے حد اختیارات میں ہے ان کی روشنی میں احکامات صادر کے جاتے رہے ہیں اور جو کچھ عمر کی قیادت میں حکومت کے حد اختیارات میں ہے ان کی روشنی میں احکامات صادر کئے جاتے رہے ہیں۔ا بتدائی ایام میں یہ تاثر بھی اور جانکاری بھی دی جاتی رہی کہ آل انڈیا سروسز(آئی آے ایس) کیڈر سے وابستہ آفیسراں کی تقرریوں اور تبادلوں کے اختیارات لیفٹیننٹ گورنر کے پاس ہیں جبکہ جموںوکشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس (جے کے اے ایس) کیڈر سے وابستہ آفیسران کی تقرریوں اور تبادلوں کے اختیارات منتخبہ حکومت کے پاس ہیں۔ اس طریقہ کار یا دوسرے الفاظ میں روڑ میپ پر عمل بھی کیا جاتارہا۔
جے کے اے ایس کیڈر کے کئی آفیسروں کے تبادلوں اور تقرریوں کے احکامات اس سال مارچ کے ابتدائی ایام میں عمر حکومت کی جانب سے جاری ہوئے جو حاصل اختیارات کی روشنی اور مختص دائرہ اختیارات میں تھے لیکن چند روز قبل اچانک تقرریوں اورتبادلوں کے دو علیحدہ حکمنامے صادر کئے گئے۔ ایک کا تعلق کے اے ایس آفیسران کے تبادلوں سے رہا جس حکم نامے کو گورنر کی طرف سے منظورا ور حکم سے منسوب کیاگیا جبکہ دوسرے حکم نامہ جس کا تعلق غالباً اکونٹس وغیرہ کیڈر سے ہے عمر حکومت کی طرف سے اجراء قراردیاگیا۔ یہی تضاد اور اختیارات کے چیلنج کا باعث بنا۔
جو وضاحت راج بھون کی جانب سے سامنے آئی اس میں اور باتوں کے علاوہ خود لیفٹیننٹ گورنر کا واضح اور دوٹوک بیان یہ ہے کہ ’’جموں وکشمیر تنظیم نو ایکٹ میںطے شدہ آئینی فریم ورک کے اندر رہتے تمام اقدامات کئے گئے ہیںمیں نے اپنی آئینی حدود سے تجاوز نہیں کیا اور نہ کبھی ایسا کروں گا‘‘لیکن عمر حکومت اور اس کی اتحادی کانگریس کا نظریہ اوراپروچ اس کے متصادم ہے۔ دونوں پارٹیوں کے مشترکہ اجلاس میں اس صورتحال پرغور وخوض کے بعد سخت اور تند لہجہ میںایک بیان جاری کیاگیا جس میں اور باتوں کے علاوہ ’’مرکزی سرکار سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ عوام کے بھاری منڈیٹ کا احترام کرے، لیفٹیننٹ گورنر اور دہلی کے ساتھ ہماری ہم آہنگی کو غلط نہ سمجھنا چاہئے، ہم حکمرانی میں وقار کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں ،لیکن اسے سیاسی کمزوری یا تابعداری کی علامت کے طور نہیں لیا جانا چاہئے۔ہم آخری بار اس اپیل کو درخواست کے طورپر نہیں بلکہ ایک پختہ انتباہ کے طور پر کررہے ہیں کہ ہمیں دیوار کی طرف مت دھکیلیں‘‘۔
مرکز نے اس ظاہری جنگ یا کشاکشی پر فی الوقت تک کوئی ردعمل تو ظاہر نہیں کیا البتہ جموں نشین اپوزیشن بی جے پی کی قیادت کے ایک حصے نے اسمبلی ارکان کے مشترکہ اجلاس کے بعدجاری بیان پر سخت نوعیت کا ردعمل دیتے ہوئے لیفٹیننٹ گورنر کے تبادلوں کے احکامات کا دفاع کرتے ہوئے جو لہجہ ، زبان اور کلمات استعمال کئے عوامی اور سیاسی حلقے ان سے متفق نہیں بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اس اندیشہ کو زبان دے رہے ہیں کہ جموںنشین اپوزیشن اسی روڑمیپ کو اپنے لئے سیاسی آب حیات فرض کررہی ہے۔ جس ردعمل میں اور باتوں کے علاوہ دبی زبان میں ریاستی درجے کی بحالی کے مطالبے کی مخالفت کی بُو دور دور سے محسوس کی جارہی ہے۔ سیاسی وعوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی مقامی قیادت کو اس ’زہرباد ‘ میں ٹانگ نہیں اڑانی چاہے کیونکہ معاملہ اختیارات اور فیصلہ سازی کی تقسیم اور روڑ میپ کا ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر نے خود وضاحت دے کر معاملہ ایڈریس کردیاتھا بادی النظرمیں لیفٹیننٹ گورنر کو کسی وکیل یا ترجمان کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ خود بااختیار ہیں اور جیسا کہ انہوںنے وضاحتی بیان میں واضح کیا ہے کہ وہ آئین اور قانون کے دائر ے میں رہ کر فرائض انجام دے رہے ہیں۔
اسی طرح کشمیر نشین اپوزیشن پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی اور اس کے رکن اسمبلی وحید پرہ نے جس ردعمل کو زبان دی ہے وہ نہ مصالحانہ ہے، نہ باہم اشتراک کا کوئی عنصر اس میں موجود ہے اور نہ ہی زمینی حقائق سے کوئی مطابقت رکھتا ہے۔پی ڈی پی قیادت کا یہ ردعمل کشمیری مثل ’’پتر حسد کور بیناون ‘‘ سے ذرہ بھر بھی مختلف نہیں۔ ایک ایسی پارٹی جو برسراقتدار بھی رہی ہے کو معلوم ہونا چاہئے کہ انتظامی امورات اور گورننس کے سیاسی، انتظامی، معاشرتی اور اقتصادی مضمرات اور پہلو کیا ہیں۔ حکومت کے ہاتھ میں واضح اختیارات نہ ہوں تو کوئی بھی عوامی مسئلہ یا کسی بھی اہمیت کا حامل اشو اُس کے سیاق وسباق میں حل نہیں ہوسکتا ہے بلکہ انتظامیہ کی صفوں میں انارکی کا دور دورہ ایسا چل پڑے گا جس کی کوئی انتہا نہیں ہوگی۔ پی ڈی پی اِن جیسی بچگانہ حرکتوں سے خو دکو بچائے رکھے توشاید آنے والے وقتوں میں اس کے پیروں تلے سے کھسکی زمین کا کچھ حصہ واپس اس کی گود میں آسکے ۔
عوام اور کشمیر کاوسیع ترمفاد یہ ہے کہ کشمیر کے مختلف حلقوں سے جتنے بھی اپوزیشن ارکان اسمبلی کی دہلیز عبور کرنے میں کامیاب رہے ہیں وہ اپنا سیاسی قد فی الحال بڑھانے کی فکر اور دوڑ میں خود کو زیادہ ہلکا ں نہ کریں کیونکہ ایسا کرنے سے نہ تین رکنی ارکان ۴۷؍ کا عدد حاصل کرسکتے ہیں اور نہ یک نفری ارکان اس حد تک پہنچ سکتے ہیں۔ منفی ردعمل، قدم قدم پر عمر حکومت کاسرنڈر کا طعنہ، ۵؍اگست کے فیصلوں کی مزاحمت نہ کرنا اور دوسرے کچھ معاملات اُٹھانے اور ان پر اپنی سیاسی صوابدید کے مطابق ردعمل کو زبان دینا غلط نہیں لیکن یہ ریاست نہیںیوٹی ہے اور یوٹی کے ہوتے حکومت کا دائرہ اختیار بہت محدود ہے۔
محبوبہ جی کا شکوہ یہ بھی ہے کہ ’ہمارے ملازمین کی برطرفی ہورہی ہے اور نوجوان جیلوں میںہے لیکن عمر حکومت خاموش ہے۔ ملازمین کی برطرفی بلاشبہ ایک تکلیف دہ اور افسوسناک امر ہے لیکن یہ برطرفیاں ۵؍اگست کے بعد ہی تو شروع ہوئی اور الیکشن کے انعقاد تک اور اس کے بعد بھی جاری ہیں۔ کون کررہاہے ؟ کیایہ پی ڈی پی کو معلوم نہیں؟ کیا مفتی محمدسعید نے اقتدار میں آتے ہی تقریباً ۶۰؍ اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کو ’’اپنی سیاسی دانست میں ڈیڈ ووڈ ‘‘قرار دے کر ملازمتوں سے برطرف نہیں کیا تھا۔ جن برطرفیوںکو بعد میں عدالتوں نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔
اس عوامی حکومت کے ہاتھ میں اختیارات اور فیصلہ سازی کے تعلق سے کچھ بھی تو نہیں البتہ اپوزیشن کے سیاسی عسکری ذخائر میں حکومت مخالف میزائل ضرور موجود ہیں ۔ قطع نظراس کے یہ میزائل نشانے پر لگ رہے ہیں یا نشانہ خطا ہو کر گورننس کی راہ میں زیادہ سے زیادہ کانٹے بچھانے کی نیت سے داغے جارہے ہیں۔ بہرحال جو جنگ یا اختلافات نظرآرہے ہیں وہ کسی بھی تعلق سے جموںوکشمیر اور نہ ہی ملک کے وسیع تر مفادات میں ہیں۔ مرکز پہل کرکے گورننس کو آسان بنانے کیلئے راہیں ہموارکریں۔ ریاستی درجہ کی بحالی اس سمت میں سنگ میل ثابت ہوسکتی ہے۔جبکہ مرکز کیلئے لازم ہے کہ لوگوں نے آئین اور جمہوریت کی بالا دستی اور ملک کے جمہوری وقار میں اپنا حصہ اداکرتے ہوئے الیکشن میں ریکارڈ توڑ ووٹ ڈالے جس کے نتیجہ میں ایک منتخبہ حکومت برسراقتدارآئی جس کا احترام مرکز کے لئے بھی لازم ہونا چاہئے۔