سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نہیں رہے۔ بس اب ان کی یادیں، ان سے وابستہ معاملات اور بحیثیت حکومتی ذمہ دار کے رول اورکردار کے حوالہ سے یادیں باقی رہ گئیں ہیں۔ مرحوم کاکشمیر کے ساتھ کافی حد تک واسطہ رہا ہے البتہ ایک مدت سے سلگتے اس اشو کا باوقار اور دیر پا حل تلاش کرنے کی سمت میں وہ جوکردار ادا کرتے رہے اور بحیثیت وزیراعظم بھی انہوںنے جو اقدامات کئے یا پہل کی اُن میں وہ ناکام رہے یا انہیںناکام بنایاگیا یا اعلیٰ ایوانوں میںوقت کے اژدھوں، ابن الوقتوں اور مفتن سیاسی کردار وںکی حامل کئی ایک افراد ان کے ان اقدامات اور پہل کو سبوتاژ کرتے رہے۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ انہیں سیاسی مخالفین کبھی مون سنگھ کے نام سے مخاطب کرتے رہے، کوئی انہیں حادثاتی وزیراعظم قرار دیتا رہا تو کوئی وزیراعظم کی کرسی پر براجماں محض ایک سایہ ہی تصور کرتا رہا۔ اگر چہ آج کی تاریخ میںمرحوم کی وفات پر یہی لوگ ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کیلئے انہیں ملک کا اعلیٰ پایہ کا ماہر اقتصادیات، ریفارمر، شریف النفس اور پاکدامن یعنی کورپشن سے پاک سیاستدان کے طور خراج عقیدت اداکرکے اپنی ماضی کی بدکلامیوں اور کردار کشیوں کا برملا اعتراف کررہا ہے۔
بہرحال کشمیر سے مرحوم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے ایک خاص تعلق قائم کردیا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ یہ مسئلہ نہ صرف داخلی سطح پر بلکہ خارجی سطح پر بھی کچھ اس طرح سے حل ہوکہ اس کے سبھی سٹیک ہولڈر مطمئن ہوجائیں، کشمیرمیںدائمی استحکام اور امن قائم ہوجائے، ٹریک ٹو ڈپلومیسی کاراستہ اختیار کرکے سابق وزیراعظم نے پاکستان کے ساتھ بات کے دروازے کھولدیئے ، کئی سال تک اس درپردہ ٹریک ٹو رابطہ پر کام کرکے ایک ایسا بریک تھرو(کامیابی) حاصل کرلی گئی کہ بس اس کا میابی پر تصدیق کی مہر ثبت کرنے کا کام باقی رہ گیا تھا۔ اگر چہ اس بریک تھرو کے خدوخال آج کی تاریخ تک بھی واضح نہیں ہوئے لیکن اس پراسیس کے ساتھ جو لوگ شریک تھے وہ اس بریک تھرو کا مختلف طریقوں سے اعتراف کرتے رہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے سرحد کے آر پار سیاست نے کچھ ایسی پلٹیاں ماری کہ بریک تھرو پر مہر تصدیق ثبت نہ ہوسکی۔ آج کی تاریخ میں معلوم نہیں کہ وہ دستاویز دہلی کے کس ایوان میںگرو وغبار سے اٹی پڑی اپنی گمشدگی کا ماتم منارہی ہوگی۔
داخلی محاذ پر مرحوم وزیراعظم نے دو اہم پہل کئے۔ سرکردہ صحافی مرحوم پڈگائونکر کی قیادت میں ایک سہ رکنی ٹیم تشکیل دی۔ اس ٹیم میں رادھا کمار بھی شامل تھی۔ ٹیم نے کشمیرکے تعلق سے کئی ایک شعبوں کے حوالہ سے ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کرکے پیش کی، زندگی کے ان مختلف شعبوں کے حوالوں میں جہاںکہیں تبدیلی ؍اصلاحات ؍سدھار کی ضرورت سمجھی گئی ان سے متعلق اپنی سفارشات پیش کیں، لیکن اس سہ رکنی ٹیم کی پیش کردہ رپورٹ کو بھی وقت کے ابن الوقت گرہ گٹ نما درباریوں نے سبوتاژ کرکے رکھدیا۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ اپنی کاوشیں جاری رکھتے ہوئے علیحدگی پسند قیادت کے ساتھ بھی مذاکرات میں شامل ہوئے اور لیڈروں کے ایک وفد کو دہلی طلب کرکے ان کے ساتھ بات چیت کا آغاز کردیا۔ وہ چاہتے تھے کہ کشمیر داخلی محاذ پر پرسکون رہے اور زندگی کے ہر ایک شعبے کے تعلق سے ترقی کے زینے اسی طرح سے طے کرتے رہیں جس طرح سے ملک کے دوسرے حصوں کے لوگ ترقیاتی سفر میں سے اپنا حصہ حاصل کررہے ہیں۔
کشمیر کے سیاسی منظرنامہ کے ساتھ ساتھ اقتصادیات اور دوسرے اہم شعبوں میں کشمیر کی پیش رفت کو یقینی بنانے اور کشمیر ی عوام کو جوں توں کی حالت سے باہر لاکر آزاد فضائوں میںسانس لینے اور باوقار زندگی گذر بسر کرنے کیلئے ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کئی ورکنگ گروپوں کی تشکیل عمل میں لائی۔ ان ورکنگ گروپوں نے اپنے اپنے شعبوں کے تعلق سے اپنی سفارشات پر مبنی رپورٹیں پیش کیں۔ مرحوم وزیراعظم کی ہدایت پر ان کے ایک ماہر مشیر ڈاکٹر رنگا را نجن نے بھی ایک رپورٹ مرتب کی جس میں اور باتوں کے علاوہ دو بجلی پروجیکٹوں کو جموںوکشمیر کے سپرد ؍منتقل کرنے کی سفارش کی گئی تھی تاکہ جموںوکشمیر میںعرصہ دراز سے جاری بجلی کا سنگین ترین بحران ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے، لیکن اس سفارش اور پروجیکٹوں کی ممکنہ منتقلی کو دھونس اور دھمکیوں کا راستہ اختیار کرکے این ایچ پی سی نے ناکام بنادیا۔
ان ورکنگ گروپوں میں ایک ورکنگ گروپ نے اندرونی خودمختاری کے سوال پر معاملات طے کرنے کی سفارش کی جس کی روشنی میں عمر کی حکومت میں شامل کچھ کانگریسی وزراء پر بھی مشتمل سب کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے پورے چھ سال تک میٹنگیں تو منعقد کیں لیکن اندونی خودمختاری کی پہل کو یہ کہکر سبوتاژ کردیا کہ اس کا حتمی تعین تو اندرا …شیخ اکارڈ میں ہوچکا ہے۔اس سبوتاژ بریگیڈ کی قیادت کانگریسی وزیر تاج محی الدین کررہے تھے جس نے اس سے قبل بھی اپنی بیٹی کے ایک اشو کے حوالہ سے عدالت سے رجو ع کرکے سٹیٹ سبجیکٹ قانون کو چیلنج کردیاتھا۔ دوسرے الفاظ میں ۳۵؍ اے کو دفن کرنے کی ابتداء اُسی کانگریسی دورمیںہوئی تھی۔
مختصر الفاظ میں مرحوم وزیراعظم کی کشمیر کے تعلق سے اقدامات، کاوشوں اور پہل کو ناکام بنانے اور سبوتاژ کرنے میں وقت وقت کے کچھ کانگریسی پہلوانوں کا بہت بڑا کردار رہا۔ مثال کے طور پر افسپا(AFSPA) کو جموں وکشمیر کے اُن علاقوں جہاں شدت پسندی یا دہشت گردی ختم کی جاچکی تھی کو مرحلہ وار طریقے سے ہٹانے کی سفارش ؍تجویز کو وقت کے وزیر دفاع اے آرانٹولی اور اس کے کچھ دیگر پارٹی اور وزارتی ساتھیوں نے ناکام بنایا۔ امن عامہ میںخلل ڈالنے کی پاداش میںگرفتار نوجوانوں کو عام معافی دینے کی سفارش کو بھی راستے کا نامعلوم پتھر قرار دیا گیا۔ ایک اور وزیرداخلہ کی کشمیر میں صورتحال کو بہتر بنانے سے متعلق تقریباً پیش کردہ ۸؍نکاتی اصلاحاتی سفارشات کو بھی عملی جامہ نہیں پہنانے دیاگیا۔
سرحد کے اُس پار سفر کرنے اور وہاں کی سیاسی اور حکومتی قیادت کے ساتھ بات چیت کرکے دو طرفہ معاملات کے حوالہ سے کسی پیش رفت کو حاصل کرنے کی سمت میں ڈاکٹر مرحوم کی خواہش کو عملی روپ دینے کی راہ میںبھی رکاوٹیں حائل کی جاتی رہی۔سرحد کے اُس پار نہ جانے کے دفاع میں اُس ادوار میں یہی لنگڑی دلیل پیش کی جاتی رہی کہ پاکستان میں برسراقتدار کوئی سیاسی قیادت نہیںاور پاکستان کی قیادت چونکہ آرمی کے ہاتھ میں ہے لہٰذا آرمی کے ساتھ بات چیت نہیں ہوسکتی۔ یہ اپروچ بے وقت کی راگنی تھی جبکہ ملک کی سیاسی اور حکومتی قیادت ماضی قریب میں پاکستان کے فوجی حکمرانوں کے ساتھ بات چیت میں ملوث رہی ہے۔ چاہئے کرکٹ ڈپلومیسی کا راستہ اختیار کیا جاتا رہا یا آگرہ چوٹی سربراہ ملاقات۔