خصوصی درجہ کی بحالی سے متعلق نیشنل کانفرنس کی قرارداد پر اسمبلی میںگذشتہ چند روز سے جو کچھ بھی دیکھنے میں آرہاہے وہ نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ منتخبہ نمائندوں کے ہاتھوں عوامی منڈیٹ کی تضحیک وتذلیل ہے۔ ہنگامہ آرائی، شوروغل، الزامات کی بھرمار، پاکستان، ملک دُشمنی، جس کشمیرکو خون سے سینچا جہاں ہوئے بلیدان وہ کشمیر ہمار اہے ایسے نعروں نے ایوان کے اندر ہی نہیں بلکہ سارے جموںوکشمیرمیں فضا کو ہی مکدر نہیں بنایا بلکہ کشمیر اورجموں کے درمیان رسہ کشی کے ایک نئے باب کا بھی عنوان رقم کردیا گیا۔
اس ہنگامہ آرائی کے پیچھے سیاست ہی نہیں بلکہ کچھ اور بھی کارفرما ہے جو نظربھی آرہا ہے اور محسوس بھی ہورہا ہے ۔ گاندربل کشمیر میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے واشگاف کردیا کہ قرارداد پیش اور ایوان سے منظور کراکے ’ہم نے اپنے چنائو منشور کی پاسداری کی بلکہ یہ بھی کہا کہ ہم دھوکہ دینے والوں میںشامل نہیں ہیں ۔ قرارداد کی شدت سے بی جے پی مخالفت کررہی ہے، ایوان کے اندر بھی اور ایوان سے باہر اس نے اپنے پارٹی کارکنوں اور اپنی ذیلی تنظیموں کو بھی میدان میں اُتارا ہے جبکہ قرارداد کی مخالفت میںوہ ساری دلیلیں پیش کی جارہی ہیں جن کاقرارداد سے جزوی تعلق بھی نہیں۔
نیشنل کانفرنس کشمیرکو دھوکہ دے رہی ہے اور بی جے پی جموں کو۔ اس دوطرفہ دھوکہ دہی کو سمجھنے کیلئے بُنیادی طور سے قرارداد کے متن کا بحیثیت مجموعی اور بین السطور گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ قرارداد میںحکمران جماعت نے کہیں بھی دفعہ ۳۷۰ یا ۳۵؍ اے کی بحالی کاتذکرہ نہیںکیا ہے بلکہ خصوصی درجے کی بحالی کا یہ کہکر مطالبہ کیا کہ آئین کے دائرے میں رہ کر اور قومی سلامتی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مرکزی حکومت عوام کے منتخبہ نمائندوں کے ساتھ بات کرے۔ لیکن بی جے پی قرار داد کے حوالہ سے خصوصی درجے کی بات نہیں کررہی ہے بلکہ کوئی دوسرا معنی پہناکر اسے دفعہ ۳۷۰، ۳۵؍اے کی بحالی کے مطالبے کے طور پیش کررہی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہاجارہا ہے کہ دفعہ ۳۷۰؍ اب ایک قصہ پارینہ بن چکی ہے بلکہ بقول بی جے پی کے ایک لیڈر کے ’’عبداللہ خاندان کی ہزار نسلیں بھی آئیں تو بھی یہ دفعہ بحال نہیں ہوں گی‘‘۔
دونوں فریقین ایک دوسرے کو نیچا دکھا نے ، بالادستی حاصل کرنے اور دبدبہ بنائے رکھنے کیلئے نہ صرف اشتعال انگیز ی کو زبان دے رہے ہیں بلکہ اس اشوکو جموں بمقابلہ کشمیریا کشمیر بمقابلہ جموں اور ہندو اور مسلمان کا لبادہ پہنانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں ، جو افسوس ناک ہی نہیں شرمناک بھی ہے۔ عوامی سطح پر یہ بحث نہیں کہ قرارداد غیرآئینی یا غیر جمہوری ہے یا ایوان کے اندر اشتعال انگیز مذہبی نعرئے بلند کرکے ایوان کی توہین کی گئی ہے بلکہ یہ ہے کہ کیا خصوصی درجہ کی بحالی کا مطالبہ ملک دُشمنی ہے۔ کیا آندھرا پردیش ، بہار اور چند دوسری ریاستیں اپنے لئے خصوصی درجے کی مانگ نہیں کررہی ہیں جبکہ وہ مرکزمیں برسراقتدار بی جے پی کی قیادت میںاین ڈی اے کی اتحادی ہیں۔ کیا فی الوقت کم سے کم ۹؍ریاستیں ایسی نہیں ہیںجو خصوصی درجہ کے زمرے میں شامل ہیں۔ ان کے خصوصی درجے میں شمولیت یا مطالبہ اگرملک دُشمنی نہیں تو جموںوکشمیر کے عوام کا خصوصی درجے کی بحالی کا مطالبہ کس سیاسی یا اخلاقی یا آئینی بُنیاد پر ملک دُشمنی سے عبارت ہے انہیں یہ خصوصی درجہ حاصل ہی نہیں تھا جبکہ جموںوکشمیر کو اس درجہ کے حوالہ سے آئینی ضمانت بھی حاصل تھی۔
اس کے ساتھ ہی یہ مطالبہ کہ ریاستی درجہ بحال کیاجائے کو کس آئینی اور سیاسی اوراخلاقی وکٹ پر کھڑے رہ کر علیحدگی پسند ی اور پاکستانی ایجنڈا کی پیروی کہاجاسکتاہے ۔ کیا وزیراعظم نریندرموید اور وزیرداخلہ امت شاہ سمیت دوسرے کئی مرکزی رہنما گذشتہ کئی برسوںسے یہ یقین دہانی نہیں کراتے رہے کہ ریاستی درجہ بحال کیاجائے گا، بھلے ہی لفظ’’مناسب وقت پر ‘‘ وہ مناسب وقت کب ہوگا اس کا فیصلہ مرکزی قیادت تو کرے گی لیکن مطالبہ کرنا ملک دُشمنی نہیں ۔
اسمبلی کے اندر جو کچھ بھی ہوا وہ اگر ایوان کی چاردیواری تک ہی محدود رکھا جاتا تو بہتر بھی تھا اور مناسب بھی، لیکن جموں میں شکمی اکائیوں کو قرارداد کی مخالفت کرنے کیلئے میدان میں اُتارنا واضح کرتا ہے کہ اس کے پیچھے صرف سیاست ہی نہیں بلکہ اور بھی کچھ ہے۔ نیپال سے ۸۰؍ سال قبل لائے گئے گورکھا، مغربی پاکستان سے بسائے گئے پناہ گزین اور پنجاب سے پچاس کی دہائی میں کرایہ پر لائے گئے صفائی کرمچاری سڑکوں پر نظرآرہے ہیں۔ نہ صرف اشتعال انگیز اور کشمیر مخالفت نعرے بلند کرتے رہے بلکہ نیشنل کانفرنس کی قیادت کے کاغذی پتلوںکو بھی نذرآتش کیا گیا۔
احتجاج کرنا اور اپنی بات سامنے رکھنے کا حق آئینی ضمانتوں کے ساتھ ہر شہری کو حاصل ہے لیکن یہ حق حاصل نہیں کہ وہ شرانگیزی اور گالی گلوچ کا راستہ اختیار کرکے اپنی بات رکھے۔ اس تعلق سے نہ صرف کشمیرکی کردارکشی کا ہر راستہ اور ہر زبان استعمال کی جارہی ہے بلکہ کشمیر نشین سیاسی قیادت باالخصوص منتخبہ عوامی نمائندوں کو آگرہ بھیج کر ذہنی علاج کرانے تک کی زہر افشانی کی جارہی ہے۔ اس کے برعکس کشمیرنے ایک بار پھر صبروتحمل اور تدبر کا مظاہرہ کیا اور وہ سڑکوں پر نہیں آئے اور نہ ہی کسی اشتعال انگیزی ہی کا راستہ اختیاکیا۔
جہاں تک دفعہ ۳۷۰یا ۳۵؍اے کا تعلق ہے ہمارا پہلے دن سے یہ موقف اور نظریہ رہا ہے کہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ، خاص کر دفعہ ۳۷۰؍ جس کو کانگریس کی قیادت اور اولین حکومتی قیادت نے دوستی کی آڑمیں آئین کا حصہ بنایا پھر بدترین عہد شکنی کا راستہ اختیار کرکے اسے اندر ہی اندر سے کھوکھلا بناکررکھدیا تھا۔ البتہ اگر زمین، ملازمتوں ،ثقافت اور تہذیب ، زبان وغیرہ معاملات کے حوالوں سے ملک کی کئی ایک ریاستوں کو دفعہ ۳۷۱ کے تحت ضمانتیں دی گئی ہیں تو جموںوکشمیر کو بھی اسی دفعہ کے تحت آئینی تحفظات کیوں نہیں دی جاسکتی ہیں۔
لداخ بھی یونین ٹریٹری بن جانے کے بعد ریاستی درجہ کی بحالی ہی کا نہ صرف مطالبہ کررہا ہے بلکہ ملازمتوں ، زمین ،ثقافت ، ماحولیات ، منفرد تشخص وغیرہ کی بھی چھٹے شیڈول کی روشنی میں مانگ کررہا ہے اور ان کی مانگوں کو لے کر مرکزی وزارت داخلہ گذرے وقتوں کے دوران اب تک کئی بار لداخ کی مشترکہ قیادت سے بات کرتی آرہی ہے اور آنے والے کچھ دنوں میں کرگل اور لداخ کی مشترکہ قیادت کو پھر بات چیت کی دعوت دی ہے۔ ان سارے ٹھوس حقائق کی روشنی میں جموںوکشمیر کوکیوں انصاف نہیں مل رہا ہے اور حقوق سے محروم رکھنے کا راستہ اختیار کیاجارہا ہے۔
۔۔۔