عموماً کہا جاتا ہے کہ کوئی وقتی کامیابی یا حادثاتی فتح کے نشے میں بدمست ہو کر اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے تو ایسی کسی بھی کامیابی کو اللہ کی نعمت سمجھ کر عاجزی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔لیکن کشمیرکے لینڈ سکیپ پر محض سرسری نگاہ ڈالنے سے کامیابیوں کے نتیجہ میں عدم توازن اور عاجزانہ رویہ کے تعلق سے کئی مثالیں موجود ہیں۔
حالیہ اسمبلی نتائج سامنے آنے پر تجزیہ کے طور یہ امر واضح کیاگیا کہ ان نتائج کے کئی حساس پہلو جو پیچیدگیوں سے بھی عبارت ہیں اُبھر کر سامنے آئے ہیں۔ جو جیت گئے ان کے سامنے راستے پھولوں کی نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ہے اور جو ہار گئے وہ اپنی شکست کے زخم سہلاتے سہلاتے نہ جانے کن مخالفانہ اور منفی راستوںپر گامزن ہو کر اپنے سیاسی کیرئیرکو زندہ رکھنے کی جدوجہد کرتے نظرآتے رہینگے۔
شمالی کشمیر سے پارلیمانی الیکشن میں حادثاتی طور کامرانی کے جھنڈے گاڑنے والے انجینئر رشید کو اسمبلی الیکشن میںاُسی حجم کی شکست ملی لیکن بجائے اس کے وہ جموںوکشمیر اور اس کے عوام کودرپیش سنگین نوعیت کے مسائل اور متوقع چیلنجوں کے حوالہ سے اپنی توانائی صرف کرتے نظر آتے وہ قدم قدم پر اگلی سرکار کی تشکیل اور اس کے متوقع سربراہ کو یہ کہکر مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں کہ اس نے پہلے دفعہ ۳۷۰ پر یوٹرن لینے کے بعد اب ریاستی درجہ کی بحالی کی مانگ پر بھی یوٹرن لے لیا ہے۔
انجینئر رشید اس تعلق سے سوال کررہے ہیں کہ کیا اگر بی جے پی کا اقتدار آنے والے پچاس برسوں تک طول پکڑ لیتا ہے تو کیا عوام دفعہ ۳۷۰؍ کی بحالی کیلئے اُس وقت تک انتظار کریں گے۔ اس حوالہ سے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی نے اپنا گول پوسٹ تبدیل کردیا ہے جس کے جال میں وادی کے بیشتر سیاستدان پھنس کے رہ گئے ہیں ۔ نیشنل کانفرنس کی قیادت۵۳ء پوزیشن کی بحالی کا نعرہ کے بعدا ب ریاستی درجہ کی بحالی کا مدعا اقتدارمیں آنے کے بعد ان کی ترجیح نہیں رہا۔
انجینئر رشید کے یہ سارے سوالات بادی النظرمیں جذباتی بھی ہیں، معصومانہ بھی ہیں اور دعوتی بھی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں انجینئر موصوف چاہتے ہیں کہ اقتدار سنبھالنے کی بجائے عمر عبداللہ (این سی ) ان اشوز کو لے کر مرکز کے خلاف جنگ کا اعلان کریں ، عوام کی قیادت کرتے ہوئے انہیں مرکزی حکومت کے خلاف سڑکوں پر لے آئے، معاملات کا حل تلاش کرنے کیلئے مرکز کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے ٹکرائو کا راستہ اختیار بھی کرے، پتھر بازی کا راستہ بھی ہاتھ میںلیں تاکہ دفعہ ۳۷۰؍ اور ریاستی درجہ کی بحالی کے لئے کشمیر کی سرزمین اب کی بار ان اشوز کے نام پر لہو رنگ نظرآئے۔
یہ کس طرز کی سیاست ہے، سڑکوں پر آکرکشمیرنے دفعہ ۳۷۰؍ بھی کھویا،دفعہ ۳۵؍ اے بھی کھویا، ریاستی درجہ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور جموںوکشمیر کی ایک اورعلاقائی اور جغرافیائی تقسیم کا بھی راستہ ہموار کیا ۔ ان سارے معاملات کا خود انجینئر رشید عینی گواہ بھی ہے اور عملی کردار بھی ادا کرچکا ہے۔ عینی شاہد اور ذاتی طور سے کردار اداکرنے کے باوجود ٹکرائو اور محاذآرائی کی باتیں کرنا اور پھر بار باریہ راستہ اختیار کرنے کیلئے انجینئر رشید کا اصرار کیوں اور کیا کچھ اس اصرار کے پیچھے ہے، وہ معلوم نہیں البتہ ان کا یہ کہنا ہے کہ وزیراعظم نے گول پوسٹ تبدیل کرکے وادی کے سیاستدانوں کو پھنسادیا واقعی ذومعنی ہیں۔ وزیراعظم نے کب وعدہ کیا کہ دفعہ ۳۷۰؍ بحال کیا جائیگا، ان کا اس حوالہ سے یہ موقف واضح ہے کہ دفعہ ۳۷۰؍ اب ایک تاریخ بن گئی ہے جبکہ ریاستی درجہ کی بحالی کے حوالہ سے لفظ مناسب وقت کا بار بار اعادہ کیاجاتا رہا ہے ۔ البتہ یہ دوسری بات ہے کہ اگر وزیراعظم سے انجینئر موصوف نے اپنے نئے سیاسی کیرئیر کے حوالہ سے کوئی ضمانت یا وعدہ حاصل کیا ہوگا اور اسمبلی حلقوں سے شکست کے بعد وزیراعظم نے شکست کو دیکھتے ہوئے اپنا گول پوسٹ تبدیل کیا ہو، یہ اشو انجینئر اور دہلی کے درمیان ہے۔
اہل وادی کا فی عرصہ تک کسی اور کے سیاسی ایجنڈا کی تکمیل کیلئے ایندھن بنے رہے ، قبرستانوں کو آباد کیا، حراستی گمشدگیوں اور ہلاکتوں کے گہرے زخم سہے اور فی الوقت بھی سہلا رہے ہیں اور بھی اس کے علاوہ بہت کچھ سہا، دیکھا اور محسوس کیا ، لیکن آخر کب تک؟ کیا اس لٹی پٹی قوم کو اپنے اہداف کا تعین کرنے کا حق نہیں، کیا یہ قوم جو گذری کئی صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑتی چلی آرہی ہے کوآزاد فضائوں میں اپنی من مرضی اور ضرورتوں کے مطابق سکون کا سانس لینے اور اپنے لئے ترقیاتی اور فارغ البالی کے اہداف کا تعین کرنے کا احتیار نہیں، کیوں یہ سودا گرانہ حیثیت کے حامل اور خصلت وفطرت کے مادہ پرست اور پیشہ ور سیاست کاروں کی ہر بات پرآنکھیں بند کرکے لبیک کہتی رہیگی؟
اس تلخ حقیقت کو کیوں دانستہ طور سے نظرانداز کیاجارہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو دفعہ ۳۷۰؍ ختم کرنے یا آئینی کتاب سے ہٹانے کیلئے ۷۵؍ سال لگ گئے، جو پارٹی اس کے خاتمہ کی ذمہ دار ہے اس پارٹی سے یہ توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے فیصلے کو کالعدم قراردیتے ہوئے اس دفعہ کو بحال کرے گی۔ یہی حقیقت فاروق عبداللہ نے یہ کہکر واضح کی کہ اگر بی جے پی نے ۷۵؍ سال تک انتظار کیا اور کوشش کرتی رہی تو اسکی بحالی کیلئے ہمیں بھی تو اپنی جدوجہد جاری رکھنی ہوگی چاہے وہ جدوجہد کرتے کرتے سالوں گذر جائیں۔لیکن کشمیرکا ایک مخصوص ذہنیت کا سیاسی طبقہ ان سیاسی موشگافیوں اورانکی نزاکتوں کو نہیں سمجھ رہا ہے یا اگر سمجھ بھی رہا ہے تو اس کا اعتراف زبان پرلانے سے کترارہے ہیں۔
بہرحال یہ سارے اشوز واد اور وِواد کے گھیرے میں بھی رہینگے اور ان پر بحث وتکرار بھی جاری رہیگی کیونکہ یہ سارے اشوز اب کشمیر کے سیاسی لینڈ سکیپ کا لازمی جز اور بہت حد تک کشمیر کا نریٹو حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ انجینئر رشید چونکہ رکن پارلیمنٹ بن چکے ہیں اور اُمید یہی ہے کہ گول پوسٹ تبدیل کئے بغیر انہیں پارلیمنٹ میں بیٹھنے اور کارروائیوں میں حصہ لینے کی اجازت دی جائیگی جس دوران وہ ان اشوز کو ترجیح کے ساتھ ایڈریس کرنے کیلئے بالکل آزاد ہیں۔ ان کیلئے یہ بھی لازم ہوگا کہ وہ کسی سمجھوتہ سے کام نہیں لیں گے بلکہ پارلیمانی الیکشن مہم کے دوران ان کے ساتھیوں نے عوام کے ساتھ جو وعدے کئے ہیں، جن حساس نوعیت کے اشوز کو ایڈریس کرکے جذباتی ووٹ حاصل کئے ہیں ان معاملات کو پوری عجلت اورسنجیدگی کے ساتھ اُٹھاکر انہیں منطقی انجام تک لے جائیںگے تاکہ عوام ان کے وعدوں کا اعتبار کرتے رہیں اور ان کا بھرم بھی قائم رہ سکیں۔